قارئین، پانی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر جینا ناممکن ہے۔ پینے کے ساتھ ساتھ یہ دیگر ضروریات کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو دیگر سہولیات سمیت صاف پانی کی بنیادی ضرورت پوری کرے، تاکہ وہ اپنا گزر بسر مطمئن ہوکر کریں۔ یہ نہیں کہ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ عوام پانی کے لیے بھی مارے مارے پھریں۔
قارئین، آپ کی توجہ پانی کہ اہم مسئلہ کی طرف مبذول کرانے جا رہا ہوں۔ آج کل مینگورہ شہر سمیت گرد و نواح میں پانی کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ ویسے تو یہ براہِ راست حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے اورمیرے خیال میں اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک کمپنی قائم کی ہے، جسے ”واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی“ (WSSC) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اب اس کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو صاف پانی فراہم کرے، لیکن مذکورہ کمپنی اب تک شہریوں کو پانی فراہم کرنے میں ناکام ہی رہی ہے۔کیوں کہ گذشتہ ایک عرصہ سے مینگورہ شہر سمیت مضافات میں پانی کا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ مسئلہ حل کرنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ کمپنی خزانے پر الٹا بوجھ بن چکی ہے۔ کیوں کہ اس میں نئے لوگ لیے گئے ہیں اور ملازمین وہی پرانے ٹی ایم اے کے ہیں۔ وہ بعد میں ٹی ایم اے کی طرف آئیں گے۔
قارئین، بہتر ہوگا کہ پہلے ”ڈبلیو ایس ایس سی“ پر تھوڑی روشنی ڈالی جائے۔ اس کمپنی کے آفیسرز کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں۔ نیز مہنگی ترین گاڑیاں ان کو فراہم کی گئی ہیں۔ ان کا کام شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی ہے اورشہر کی صفائی ہے۔ لیکن اگر جائزہ لیا جائے، تو پانی شہریوں کے لیے ناپید ہے۔ آئے روز شہری اس بنیادی سہولت کے لیے سراپا احتجاج رہتے ہیں، لیکن پانی کا مسئلہ ہے کہ حل ہونے کی بجائے مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ شہر سمیت مضافات میں بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ پانی کی بنیادی سہولت کے لیے عوام در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس سے قبل یہ سارے معاملات ٹی ایم اے یعنی بلدیہ پورا کرتی تھی۔ تب بھی مسئلے تھے، لیکن اتنے زیادہ نہیں تھے۔ اب تو پانی بالکل نایاب ہونے جا رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”ڈبلیو ایس ایس سی“ پر کروڑوں روپے خرچ کرنے سے شہریوں کو کیا فائدہ ہوا؟ تو جواب ہے کہ ”جناب کچھ بھی نہیں!“کیو ں کہ حالات شہریوں کے سامنے ہیں۔ شہری مہنگے داموں پانی ٹینکر یا ڈائنا گاڑی میں خرید کر لاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔کسی کے پاس اس کا حل نہیں۔ تنخواہیں تو بڑی بڑی لی جاتی ہیں، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کروڑوں روپے نئے محکمے پر خرچ کرنے کی بجائے اگر یہ فنڈ بلدیہ کو دیا جاتا، تو میرے خیال میں مینگورہ شہر کے پانی کا مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا۔
اب حکوت کو چاہیے کہ پانی کے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، تاکہ شہری سکھ کا سانس لیں۔ اس کے ساتھ صفائی ستھرائی کا نظام بھی درہم برہم ہے۔ شہر تو شہر ہے بلدیہ مینگورہ کے ہر گاؤں میں گندگی کے ڈھیر نے وہاں کے مکینوں کا جینا حرام کرکے رکھ دیا ہے۔ بدبو اور تعفن نے پورا علاقہ سر پر اٹھا رکھا ہے۔ لوگ تو اب قبرستانوں میں بھی گند پھینکنے لگے ہیں، جس سے انکی بے حرمتی ہوتی ہے۔لہٰذا حکام کو چاہیے کہ یہ اہم مسئلے حل کریں اور بطورِ خاص قبرستانوں کی حفاظت کا بندوبست کریں۔