محمد وہاب سواتی
فضل رازق شہابؔ سوات کے ممتاز کالم نگار اور تاریخِ ریاستِ سوات کے حوالہ سے چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ اس وجہ سے کہ آپ ریاستِ سوات کے پبلک ورکس میں اوورسیر کے طور پر کام کرچکے ہیں۔
آپ نے ریاستی دور کو بہت قریب سے دیکھا اور جانا ہے۔ اس وجہ سے ریاستِ سوات کے بارے میں نایاب معلومات کا ذخیرہ آپ کے پاس موجود ہے۔ اسی ذخیرہ کو گاہے گاہے روزنامہ آزادی میں اپنے قارئین کی نذر کرتے رہے ہیں۔ تاکہ ریاستِ سوات کی تاریخ میں دلچسپی لینے والوں کی تشنگی دور ہو۔
قارئین، آپ کے کالم ”عکسِ ناتمام“ کے لوگو سے چھپتے رہتے تھے۔ ریاست سوات کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جسے آپ نے صفحہئ قرطاس پر نہ اُتارا ہو۔ انہی کالموں کو مجموعہ ”عکسِ ناتمام“ کے نام سے سوات کے مشہور نشریاتی ادارے ”شعیب سنز“ نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے، جس میں فضل ربی راہیؔ صاحب، عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ اور میاں گل شہریار امیر زیب جیسے نامور اشخاص کی آرا بھی شامل ہیں۔
”عکسِ ناتمام“ میں شہابؔ صاحب کی سلیس اردو اور جداگانہ طرزِ نگارش قاری کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔ افسانوی اور کہیں کہیں جذباتی رنگ کی جھلک بھی کتاب میں دکھائی دیتی ہے۔ اس وجہ سے ہر موضوع اپنا حصہ خود سمیٹتا نظر آتا ہے۔
قارئین، یہ ایک کتاب نہیں بلکہ شہابؔ صاحب کے مختلف تجربات و مشاہدات کا خلاصہ ہے، جس میں سوات سمیت دیگر سیاسی، ادبی اور معاشرتی پہلوؤں کا احاطہ احسن طریقہ سے کیا گیا ہے۔ کہیں ”پیدائشی لیڈر“ کا تذکرہ تو کہیں ”سپرلی سپرلی وختونہ“ کی باتیں، کہیں فراموش ”ریاستِ سوات کے قلعوں“ کا تذکرہ تو کہیں ”تلخ نوائی“ کا غلغلہ، کہیں اولیا اور ”سیدو شریف“ زیرِ بحث ہے، تو کہیں ”علم کی تلاش“ میں سرگرداں، کہیں نظر ”پشتون کی جڑوں“ پر تو کہیں ”لاوارثوں“ کی فکر، کہیں اپنے ”بچپن کے رمضان“ میں خوش دکھائی دیتے ہیں، تو کہیں ”تھرڈ جنریشن“ سے نالاں نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں ہر موضوع کا احسن طریقہ سے احاطہ کیا گیا ہے۔
قارئین، شہابؔ صاحب کی ”عکسِ ناتمام“ صرف سوات کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اس میں ادبی اور سیاسی موضوعات بھی شامل ہیں۔ ادبی اور سیاسی اشخاص پر خاکے اچھے طریقے سے کھینچے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ سخت گیر نقادوں کی طرح تنقیدی مضامین بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
شہابؔ صاحب اپنے تخلص کی طرح کتاب میں شعلہ بن کر زبردست تنقید کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ راقم نے جب اپنے ایک مضمون ”اردو ادب میں پشتونوں کا کردار“ میں غیر مستند تاریخی حوالہ کا ذکر کیا تھا، اس کے دوسرے ہی روز شہابؔ صاحب نے ایک مضمون ”گستاخی معاف“ میں اپنے مخصوص انداز سے ہماری خوب درگت بھی بنائی تھی۔ ہمارا تو اُس وقت سے ”گوگل سرچ“ پر سے یقین اُٹھ سا گیا ہے۔ ورنہ اس سفید ریش نقاد کو کیا خبر تھی، کہ بندہئ ناچیز اہلِ قلم کے جہاں میں ابھی طفلِ مکتب ہی ہے۔
تین سو اسّی صفحات کی یہ کتاب دیدہ زیب سرورق (جس پر ریاستِ سوات کے قلعے کا عکس ہے) کے ساتھ محض 380 روپے میں دستیاب ہے۔ باذوق قارئین کے لیے یہ قیمت مناسب ہے۔ البتہ جو کتاب مجھے شہابؔ صاحب نے بطورِ تحفہ دی ہے، اس کی فہرست اور کتاب میں درج مضامین کی ترتیب میں غلطی ہے۔ شائد طباعت کے دوران میں کوئی مسئلہ پیش آیا ہو۔ باقی کتاب کی پرنٹنگ، لے آوٹ اور ٹائٹل میں کوئی کمی نہیں۔ اس میں اتنا دم ہے کہ اسے اپنی لائبریری کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔