ایچ ایم کالامی
بچپن سے ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی تحاریر بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ وہ روزنامہ آج میں ’’دل پشوری‘‘ کے عنوان سے لکھتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ بہترین لکھاری وہ ہوتا ہے جو عوام کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سو فٹ لمبا سانپ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا، جس میں منگورہ تا کالام سڑک کی زبوں حالی اور مقامی لوگوں کی آہ و زاری بیان کی گئی تھی۔ اس کالم کو پڑھے کتنے سال بیت گئے، مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہی سو فٹ لمبا سانپ اب بھی ٹیڑھا ہوکر جوں کا توں پڑا ہے اور بدستور مقامی لوگوں اور سیاحوں کو ڈستا جا رہا ہے۔
خدا خدا کرکے کفر ٹوٹ گیا اور سڑک پر تعمیراتی کام شروع تو ہوگیا، لیکن پھر بھی مقامی لوگوں کے لیے باعثِ زحمت ہی ہے۔ اس سڑک نے کتنے خاندان اجاڑ دیے اور کتنے احتجاجی مظاہروں اور حکومتی جھوٹی تسلیوں کے بعد یہ کام شروع کیا گیا، اگر ان دلخراش واقعات کو پھر سے چھیڑوں، تو شاید دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں گے، مگر حالیہ دنوں جن اذیتوں کا سامنا ہے، ان میں سے ایک تازہ ترین واقعہ کچھ طنز و مزاح کے تڑکے کے ساتھ بیان کرنا چاہوں گا، تاکہ آپ کی طبیعت بھی بوجھل نہ ہو۔
ہوا یوں کہ منگورہ سے واپس کالام جانا تھا، ایک عدد ’’الپرازولام‘‘ کا نسخہ لینے کے بعد اپنی سیٹ پر براجمان ہوا۔ منگورہ بائی پاس سے نکلتے ہی حضرتِ ڈرائیور نے گاڑی کو اس طرح بھگانا شروع کیا کہ بس شوں شوں کی آوازیں کانوں سے ٹکرارہی تھیں۔ اوور ٹیک کرتے ہوئے ایسے کرتب دکھاتا کہ مجھے ڈرائیور پر ’’سلطان گولڈن‘‘ کا شک ہونے لگا، مگر جب سامنے والے آئینے میں اس کی شکل دیکھتا، تو یہ وہم ختم ہوجاتا۔ ایک نحیف و لاغر سا ڈرائیور تھا جو خود کو سلطان گولڈن سمجھ بیٹھا تھا۔ گاڑی میں خواتین بھی سوار تھیں۔ مٹہ بازار سے نکل گئے، تو ہم نے آواز لگائی: ’’ارے بھائی! جیپ ریلی تھوڑی ہے۔ ایکسلریٹر سے کبھی پاؤں ہٹایا بھی لیا کرو۔‘‘ لیکن صاحب نے طنزیہ نگاہوں سے ایک جھلک پیچھے مڑکر دیکھا اور پھر گاڑی کو ایسی جھول دی کہ تھوڑی دیر بعد خود کو سیٹ کے نیچے سی این جی سلنڈر سے چمٹا ہوا پایا۔ اس کے بعد خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ کیوں کہ صاحب کو سمجھانا چنگاری کو ہوا دینے کے مترادف تھا۔ اسی کشمکش میں بحرین بازار پہنچ گئے۔ حاکم کاکا کے ہوٹل سے ’’ٹوپک مارکہ چائے‘‘ کی ایک پیالی حلق میں اتاری اور دوبارہ اپنی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔اس سمے تھوڑا بہت اطمینان تھا کہ آگے ویسے بھی سرے سے سڑک ہی نہیں، بس تعمیراتی کام کے لیے لگائے گئے پتھروں اور ریت کے ڈھیر سے گاڑی گزارنی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ’’سلطان گولڈن صاحب‘‘ کس طرح اپنی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہیں، مگر یہ ہماری خام خیالی ثابت ہوئی۔ بحرین بازار سے نکلتے ہی ڈرائیور پھر گاڑی کو برق رفتاری سے بھگانے لگا۔ دونوں طرف کے شیشوں سے اڑتی دھول کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گاڑی کے کل پرزے ادق افریقی زبان میں چیخ رہے تھے۔ دوسری طرف ہماری ہڈیوں کے چٹخارنے کی آوازایک الگ سماں باندھ رہی تھی۔
بھئی، ایسے موقع پر آپ کا احتجاج نقارخانے میں توتی کی آواز ہی ثابت ہوتا ہے۔ کیوں کہ جس شدت سے آواز نکالو، وہ ڈرائیور تک پہنچنا تو کجا اپنے کانوں تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔ اچانک ایک زوردار جھٹکے سے گاڑی اس طرح رُک گئی، جیسے دوڑتے کتے کی دم پر ہاتھی کا پاؤں پڑ گیا ہو۔ ایک لمحے میں ہر سو سناٹا چھا گیا۔ گاڑی کے پرزے اور انجن دونوں خاموش ہوگئے۔ ہمارے کانوں میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ گاڑی سے کچھ جلنے کو بو آرہی تھی۔ حضرتِ ڈرائیور چابی گھماتا رہا، مگر مجال ہے جو گاڑی میں زندگی کی رمق ہو۔ اس کے پاس افسردہ نگاہوں سے ہمارا منھ تکنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ گاڑی کی انتڑیاں جل کر راکھ ہوگئی تھیں۔ رات کے نو بجنے والے تھے، سنسان جگہ پر خواتین اور بزرگوں کے ساتھ سارے مسافر بے یار و مددگار کھڑے تھے ۔یہ منظر دیکھ کر کلیجہ منھ کو آیا۔ ادھر صبح آفس جانے کی پریشانی، ادھر واپس اسی خستہ حال سڑک پر کلاسز کے لیے منگورہ آنے کی زحمت اٹھانا۔ اس ساری پریشانی میں لالچ مجھ پر حاوی ہوگئی۔ تمام سواریوں کو ادھر چھوڑ کر آدھا کلومیٹر پیچھے جاکر بیٹھ گیا، تاکہ نیچے سے آنے والی کسی گاڑی سے لفٹ مانگوں اور نودو گیارہ ہو جاؤں۔ تھوڑی دیر بعد ایک ڈائنا گاڑی نمودار ہوئی۔ گاڑی مکمل خالی تھی، صرف ڈرائیور ہی تھا جو گاڑی چلا رہا تھا۔ اس نے لفٹ دی اور سیدھا کالام جانے کی نوید سنائی۔ خوشی سے پھولے نہ سمایا اور آرام سے سیٹ پر ٹیک لگائی، ڈیش بورڈ پر پڑی ڈبیا سے ایک عدد سگریٹ نکال کر سلگائی اور دھویں کے مرغولے اڑانے لگا۔ لیکن قسمت تب پھوٹ گئی جب گاڑی ان مسافروں کے پاس پہنچی۔ ایک نوجوان خاتون سمیت سامنے آگیا اور فریاد کی کہ انہوں نے اتروڑ جانا ہے۔ ڈرائیور محترم کون تھے؟ میں تو انہیں نہیں پہچان سکا، لیکن نوجوان کے ساتھ ایک خاتون اور وہ بھی بے یار و مددگار، جب انہوں نے رحم بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے کہ دیکھئے آپ خود ایک صحافی ہیں اور دوسروں کے دکھ سے خوب واقف ہیں۔ ڈرائیور صاحب کے منھ سے یہ جملہ سنتے ہی اس شعر کو گنگناتے ہوئے گاڑی سے واپس اترگیا۔
دنیا میں کتنا غم ہے
میرا غم کتنا کم ہے
ڈرائیور نے نوجوان اور خاتون کو سیٹ پر بٹھایا، تو پلک جھپکتے ہی تمام دوسری سواریاں بھی کیبن میں بیٹھ چکی تھیں اور ’’ویکینسیز فل ہوچکی تھیں۔ دوبارہ اسی سنسان اور تاریک سڑک پر دوسری گاڑی کا انتظار کرنے کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد دو اور نوجوان بھی آکر ساتھ کھڑے ہوئے۔ اتنے میں قدرت مہربان ہوگئی اور ایک ہائی ایس گاڑی آکر رک گئی۔ جیسے ہی دروازہ کھولا، تو ساتھ کھڑے نوجوانوں میں سے ایک جھٹ سے اندر گھس گیا اور کنڈیکٹر کی خالی نشست پر بیٹھ گیا، ہم دونوں پائے دان سے لٹک کر چھت سے چمٹے رہے۔ راستے میں بس اتنا محسوس ہورہا تھا کہ دھول ناک، کان اور گلے میں گھس رہی ہے۔ جب کہ سر کے بالوں میں تو کنکر بھی پڑتے محسوس ہو رہے تھے۔
ایک مقام پر تھوڑی سی روشنی ہمارے چہروں سے ٹکرائی، تو ایک دوسرے کو دیکھ کر سٹپٹا گئے۔ میں ساتھ بیٹھے نوجوان کو بھوت اور وہ مجھے بھوت سمجھ کر سہم جاتے۔
یوں خدا خدا کرکے ہم کالام بازار پہنچ گئے۔ بدقسمتی سے گاڑی سے اتر کر ایک نون لیگی دوست سے سامنا ہوا۔ اس نے نوازشریف کو ڈرانے والی خلائی مخلوق سمجھ کر سر پٹ بھاگنا شروع کر دیا، لیکن بے چارے کو کیا پتا تھا کہ (شاعر سے معذرت کے ساتھ)
میری حالِ وحشت سے اے ڈرنے والو!
میں ایسا نہیں تھا، بنایا گیا ہوں
جھٹ سے ایک حمام میں داخل ہوا۔ حجام استرا پھینک کر غسل خانے کی طرف بھاگ نکلا اور گاہک نے جیسے ہی دروازہ کھول کر بھاگنے کی کوشش کی، تو میں نے پانی سے بھرے ایک لوٹے کو چہرے پر انڈیل دیا۔ منحوس شکل نمودار ہوتے ہی دونوں یک زبان ہوکر پکار اٹھے ’’ارے، کالامی صاحب، آپ!!!؟
قارئین، یہ پوری روداد سنانے کا مقصد آپ کو ایک بونگے لکھاری کو پڑھنے پر مجبور کرنا تھا۔ ورنہ سیدھی سی بات یہ ہے کہ اتنی لمبی تمہید باندھنے اور افسانے گھڑنے سے اتنا ہی لکھ دینا کافی تھا کہ ’’افسوس سے احتیاط بہتر ہے‘‘ مگر کیا کریں فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ادھر ادھر کی ہانکی جائے۔