عصمت علی اخون
ہم اپنے معاشرہ میں صفائی ستھرائی کے حوالہ سے لاکھوں روپے مختلف آگاہی مہمات پر خرچ کرتے ہیں، لیکن خود عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ سیکڑوں لوگ جذبے کے تحت کام کرتے ہیں، تاکہ ہمارا عکس صاف دکھائی دے اور لوگ معاشرے کے بگڑاؤ کے حوالہ سے ہمیں تنقید کا نشانہ نہ بنائیں، لیکن عملی طور پر کبھی خود اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ جس معاشرے میں ہم اور ہمارے بچے زندگی گزار رہے ہیں، اس کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس کی بھلائی کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ویسے تو حکومتیں ہوتی ہیں بیشتر کاموں کے نمٹانے کے لیے۔ ترقی و خوشحالی کی فکر بھی حکومتی مشینری کرے گی، لیکن کیا کبھی ہم خود بھی چھوٹے موٹے معاشرتی مسائل کی طرف توجہ دیں گے؟ اس کے حل کے لیے ہمیں بحیثیتِ انسان اور اس معاشرے کے باسی کی حیثیت سے کیا کرنا چاہیے؟ نہیں، ایسا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ ہم بس ووٹ دے کر اپنی ذمہ داری پوری کرلیتے ہیں، اور زیادہ تر تو اب ووٹ بھی نہیں دیتے۔ کہتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں، بس نقصان ہی نقصان ہے۔
ہم نے کبھی خود سے احتساب شروع نہیں کیا کہ ہم کیا ہیں، اور خود اس معاشرے کے بگاڑ میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟ ہم بس خواب دیکھنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے حالات کیسے ٹھیک ہوں گے اور ہم عیش و عشرت کی زندگی کس طرح جئیں گے؟ ہماری سوچ بس اس حد تک ہی محدود ہے۔ ہم نے کبھی اس معاشرے کو اپنا سمجھا ہی نہیں۔
قارئین، ایک چھوٹے سی مسئلے کی طرف آپ حضرات کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، جسے ”صفائی“ کہتے ہیں۔ اس کے حوالے سے عام لوگوں کا کردار کیا ہے؟ ہمیں ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے مَیں اور بعد میں ڈھیر سارے لوگ کیا یہ گند اور گندگی نہیں پھیلا رہے؟ کیا ہم اپنے کمرے کا کوڑا کرکٹ کمرے سے نکال کر باہر گلی میں نہیں پھینکتے؟ کیا ہم راہ چلتے جب خوراک کھاتے ہیں، تو اس کا تھیلا یا بچا کچھا سامان راستے میں نہیں پھینکتے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے کمرے کی طرح اپنی گلی اور محلہ کی صفائی پر غور کیا ہے؟ کیا کبھی دفتر کا صفائی والا اگر چھٹی پر ہو، تو اس دن ہم نے اپنے دفتر کی صفائی کی ہے؟ کیا جس پلیٹ میں ہم نے کھانا کھانا ہو، اس کو کبھی خود اپنے ہاتھوں سے دھویا ہے؟ نہیں، اور اگر ہوتا بھی ہے،تو بہت کم لوگ ایسے ہوا کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کسی کی حیثیت میں کوئی کمی نہیں آتی، بلکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کو دیکھ کر لوگ اس سے جوت جلا کر آگے دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔
قارئین کرام، ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں، اس کے لیے ہم کچھ بھلا بھی کرسکتے ہیں۔ حکومت اور حکمرانوں نے جو کرنا ہے، وہ کرتے ہیں یا نہیں، وہ ایک الگ بات ہے۔ ہم بس اتنا کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو صرف سکول بھیجتے ہیں اور ان کے لیے بہتر سکول کا انتخاب کرتے ہیں، تاکہ کل ہمارے بچے ہمیں یہ نہ کہیں کہ ہم نے ان کی بہتر تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہم میں سے ہر کوئی پیسے کی مشین بنا ہوا ہے، اور کمائی کے چکر میں ہے، لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جن کے لیے کمائی کی جا رہی ہے، وہ صرف سکول جانے سے اچھا انسان نہیں بننے والے۔ آپ کو ان کی تربیت پر بھی غور کرنا ہوگا۔ زندگی کے نشیب و فراز سے ان کو آگاہ کرنا ہوگا، اور انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ اس معاشرے میں وہ زندگی کیسے گزاریں گے۔
قارئین، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ہمیں اپنے محلے اور آس پاس کے بچوں کی بھی تعلیم و تربیت کے لیے سوچنا ہوگا، اور والدین کو قائل کرنا ہوگا کہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ معاشرے میں زندگی گزارنے والے دیگر بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں بھی سوچیں۔ ہمارے بچے اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔کسی بھی بہتر تعلیمی ادارے میں سبق پڑھنے یا تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اسی معاشرے میں واپس آئیں گے۔ اسی معاشرے کا رنگ پکڑیں گے، تو قارئین! صرف اپنے اور اپنے بچوں یا اپنے گھر کے ساتھ آس پاس کے بچوں اور پڑوسیوں پر بھی نظر رکھنے اور ان کی بہتری کے لیے صرف سوچنے کی بجائے عملی اقدام اٹھانا ہوں گے، تب جا کے ہمارا معاشرہ ٹھیک ہوگا اور ہمارا ملک ترقی کرے گا۔ صرف سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا، نہ باتوں ہی سے کچھ ہونا ہے۔ مشترکہ کردار اور عملی اقدامات خود اٹھانا ہوں گے۔ کسی کے انتظار سے کچھ بھی ہونے والا نہیں۔ اپنا معاشرہ خود ٹھیک کرکے ہمیں اپنے ملک کو ترقی کی راہ گامزن کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔