روح الامین نایابؔ
قارئین کرام! آج کل اقوامِ متحدہ میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا ہر جانب چرچا ہو رہا ہے۔ ہاں، یہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان نے اقوامِ عالم میں کشمیر کا مقدمہ بہت اچھے انداز سے اور ببانگ دُہل پیش کیا ہے۔ یہ تقریر ہر لحاظ سے مکمل، جامع اور دو ٹوک تھی۔ ہر بات اور مسئلے کو بلا کسی جھجک واضح الفاظ میں پیش کیا گیا۔ عمران خان اس کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر، لیکن جو حقائق ہوں اُنہیں سیاسی پردوں میں نہیں چھپانا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے نہیں کرنے چاہئیں۔ جھوٹ بول کر کسی کی سیاسی یا شخصی کردار کشی کا وقت اب گزر چکا ہے۔ یہ پروپیگنڈا کرنا کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے، یا عمران خان نے کشمیر کا سودا کیا ہے، بالکل غلط اور لغو باتیں ہیں۔ معاہدہ شملہ کے بعد یہی پروپیگنڈا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیا گیا تھا۔ بھٹو کو انڈیا کا ایجنٹ، ایران کا ساتھی یہاں تک کہ قادیانیوں کا آدمی کہا گیا تھا۔ وقت نے یہ سب باتیں غلط ثابت کیں۔
قارئین کرام! اب یہ ایک الگ تاریخی جبر ہے۔ اقوامِ عالم کی سطح پر نا انصافی کا ایک سلسلہ ہے جو چلا آرہا ہے۔ تقریر جذباتی ہو، اچھی ہو، لمبی ہو، حقائق پر مبنی ہو، لیکن فائدہ کچھ نہیں۔ کیوں کہ اقوامِ متحدہ میں تقاریر کو نہیں، بلکہ طاقت، بھاری معیشت، بھاری ہتھیاروں اور پانچ ممالک کی ویٹو پاؤر کو تولا جاتا ہے۔ اسی اقوامِ متحدہ میں اسی سٹیج پر یا سر عرفات نے تقریر کی تھی۔ اسی اقوام عالم کے سامنے کرنل قذافی نے، کرنل ناصر نے، ہیگو شاویز، طیب ارغوان، فیڈرل کاسٹرو، چی گویرا، شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور پتا نہیں کس کس نے جذباتی اور حقائق پر مبنی تقاریر کی ہیں۔ اور نتیجہ کیا نکلا؟ وہی صفر۔ پھر ان سب حضرات کا کیا حشر کیا گیا؟ سال ہا سال گزرنے کے باوجود وہی مسائل جوں کے توں ہیں۔ وہی مظالم اور ناانصافیاں رواں دواں ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام ابھی تک اپنے لہو میں ڈوبی ہوئی تلخ زندگی بھگت رہے ہیں۔ اقوام متحدہ چند بڑی طاقتوں کا عیش کدہ ہے۔ اُن کے اپنے مخصوص مفادات ہیں۔ وہ مخصوص اراکین ایسی جذباتی تقریریں سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ کانوں سے ہیڈ فون نکال کر گپ شپ لگاتے ہیں۔
یہ یاد رکھیے کہ کشمیر جدوجہد اور مسلح جدوجہد سے ہی آزاد ہوگا، اور آزادی کی یہ لڑائی کشمیریوں کو خود لڑنی پڑے گی۔ اس آزادی کی جنگ کو مذہبی رنگ نہیں بلکہ ایک مظلوم قوم کے حقِ خود ارادیت کی جد و جہد کا رنگ دینا چاہیے۔
قارئینِ کرام! عمران خان کی گرم گرم جذباتی تقریر کے علاوہ وطن عزیز میں کچھ سلگتے حقیقی مسائل بھی ہیں، جن سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست جو تحریک انصاف کا جنونی ہے۔ خان صاحب کی تقریر سے بہت خوش اور دیوانہ ہوگیا تھا۔ گاؤں کی گلیوں میں دیوانہ وار تقریر پر مختلف لوگوں کے ساتھ بحث مباحثہ کررہا تھا، اور خان صاحب کو کشمیر کا ہیرو بنانے پر تُل گیا تھا، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ تقریر کے اگلے دن یعنی 28 ستمبر کو بجلی کے بل آئے تھے۔ اتفاقاً ہمارے پی ٹی آئی دیرینہ دوست کا سامنا ایک ایسے متاثرہ غریب سے ہوا جسے 28 ہزار روپے کا تازہ تازہ بل آیا تھا، اور جب ہمارے دوست نے عمران خان کی تقریر کا قصہ چھیڑا، تو پھر نہ پوچھیے کہ متاثرہ بجلی بل غریب نے کس کس القابات سے عمران خان کو، تقریر کو اور کشمیر کو نوازا۔ وہ الفاظ یہ بندہ نواز ضبطِ تحریر میں نہیں لاسکتا۔ غرض دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ الغرض، ہمارا دیرینہ انصافی جنونی دوست آگے جاکر دم لینے کے لیے ایک دکان پر بیٹھ گیا۔ انصافیوں کو صبر کہاں ہوتی ہے؟ یہ ہمیشہ اپنی دُھن میں لگتے رہتے ہیں۔ دکان دار کو تقریر کا قصہ خضوع و خشوع سے سنانا شروع کیا۔ اُسے کیا پتا تھا کہ دکا ن دار غریب کو اُسی دن نامعلوم ٹیکس والوں نے مبلغ پانچ ہزار روپے کا ٹیکا لگایا تھا۔ وہ تباہ ہوا تھا۔ پھر اُس نے انصافی بے چارے پر جو دل کی بھڑاس نکالی، خدا کی پناہ! دونوں میں گھمسان کا رن پڑا اور اچھی خاصی لڑائی ہوگئی۔
شام کے قریب مقامی ہسپتال میں ڈینگی سے بیمار ایک مریض کی بیمار پرسی کے لیے یہ صاحبِ جنون تشریف لے گئے۔ بیمار سے تقریر پر کیا بات کرنی تھی۔ شاید ضمیر نے کچھ ملامت کیا ہوگا۔ البتہ ایک دوست ڈاکٹر سے تقریر کے موضوع پر پنگا لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ کھڑے کھڑے اسے ہسپتال سے نکال دیا۔ ڈاکٹر صاحبان تو پہلے سے ہڑتال پر تھے، اور غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے عمرانی تقریر کا وہ پوسٹ مارٹم کیا کہ ہمارے انصافی دوست کی اچھی خاصی درگت بنائی۔ اُدھر بھی لڑائی ہوگئی۔ شام کو تھکا ہارا مجھے ملنے آیا اور ساری کہانی سنائی۔ مَیں نے ہمدردی جتائی کہ اگر اب بھی دماغ ٹھکانے نہیں آیا ہو، تو ذرا جاکر کسی اُستاد، کسی پولیس، کسی صحافی، کسی تجارت پیشہ کے ساتھ بھی خان صاحب کی تقریر کا قصہ چھیڑدو، تاکہ تمہیں مزید مالش کیا جائے۔
قارئین کرام! اس پورے قصے اور اس کالم کا مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مسائل اور تقاریر اپنی جگہ پر، لیکن عوام کو اپنے تلخ مسائل کا حل چاہیے۔ بجلی، فون، گیس کے بلوں نے تباہی مچا کر رکھ دی ہے۔ مہنگائی، بے شمار اندھی ٹیکسوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔
بقولِ مراد سعید صاحب ”سوات کے ٹیکس فری زون ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔“ یہ کیسا ٹیکس فری زون ہے؟ گیس بل میں ٹیکس، فون بل میں ٹیکس، بجلی بل میں بے شمار ٹیکس، دکان داروں پر ٹیکس، جرمانے، لائسنس کے نام پر بدمعاشی کا بھتا، یہ کیا ہیں؟ ان ٹیکسوں کا نہ اعلان، ترتیب، نہ صلاح مشورہ، بڑے چھوٹے دکان داروں، غریب اور مال داروں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ یہ کیا افراتفری اور غدر مچا ہوا ہے۔ میرے خیال میں ان بے جا ٹیکسوں اور بھتا مافیا کا تحریک انصاف کے صوبائی اور قومی اسمبلی ممبران کو بھی پتا نہیں ہے۔ اُن سے عرض ہے کہ اگر اُن کو خان صاحب کی تقریر سے فرصت ہو، تو ذرا سوات کے غریب عوام کے مسائل پر توجہ دیں۔ بجلی کی اُووربلنگ کا سلسلہ کب سے جاری ہے۔ بجائے اس کے کہ پچھلے بقایاجات عوام کو دیے جائیں، مزید بھاری بل بھیج کر عوام کی زندگی دوبھر کردی گئی ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ ہم سے بھی ایندھن چارجز لیے جا رہے ہیں کہ ڈیم ہماری زمین پر بنے ہیں اور پانی بھی ہماری دریاؤں کا استعمال ہورہا ہے۔
تعلیمی سلسلہ مذاق بن چکا ہے۔ یہ ایف ٹی ایس بن رہا ہے جس کے ٹیسٹ منسوخ ہو رہے ہیں اور ایف ٹی ایس بھی ختم ہورہا ہے۔ پھر این ٹی ایس آگیا، ٹیسٹ لیا، پرچہ آوٹ ہوا، غریب طلبہ کی محنت رائیگاں گئی، پیسہ ضائع ہوا۔ آنا جانا نقل و حمل کی تکالیف الگ، والدین الگ رو رہے ہیں۔ شہباز شریف کے دور میں پنجاب میں دو عدد مریض چل بسے تھے، اب ڈینگی نے پورے پاکستان کو کاٹا ہے۔ ہزاروں ڈینگی متاثرین ہیں۔ سیکڑوں کی جان خطرے میں ہے۔ اُس وقت عمران خان نے مسلم لیگ ن کی حکومت کا ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ اب خاموش بلکہ لمبی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ پتا نہیں حکومت کہاں ہے اور کیا کررہی ہے؟ آپ نے بجلی بیچ دی، پاکستان ٹیلی کام فروخت کردیا، سٹیل مل اور پی آئی اے نج کاری میں دے رہے ہیں اور اب ہسپتالوں کو بھی پرائیویٹ اداروں کو فروخت کر رہے ہیں، توپھر آپ لوگ کیا کریں گے؟ اس سے اچھا ہے کہ پورا پاکستان ایک ہی بار چین یا امریکہ کو ٹھیکے پر دے دیں، اور آپ سب لیٹ کر تنخواہیں لیتے رہیں۔ تاکہ ہم عوام بھی گلے شکوے نہ کریں اور بھی مزے میں ہوں۔ ساحرؔ نے کیا خوب کہا تھا
یہ جشن، جشن مسرت نہیں تماشا ہے
نئے لباس میں نکلا ہے رہزنی کا جلوس
ہزار شمع اخوت بجھا کے چمکے ہیں
یہ تیرگی کے ابھارے ہوئے حسین فانوس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور لڑائی ہوگئی
