تصدیق اقبال بابو
جہانزیب دلسوزؔ سے میرے تین بندھن ہیں۔ ایک معلی کا بندھن، دوسرا اوپن یونیورسٹی کے اتالیق ہونے کا بندھن اور تیسرا شعر و ادب کا بندھن۔ یہ تینوں حوالے اتنے توانا ہیں کہ ہمیں کشا کشا قریب ہی رکھتے ہیں۔ انہی کے سکول (مٹہ ہائی سکول) میں میرے دوست آفتاب حسین بٹ ایڈوکیٹ بھی پڑھایا کرتے تھے۔ تب تک مجھے پتا نہیں تھا کہ دلسوزؔ شعر و سخن کی بساط بھی جمائے رکھتے ہیں۔ یہ راز مجھ پہ تب افشا ہوا جب اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’اغیزمن احساسات‘‘ میرے ہاتھوں تک پہنچا، جس پہ میں نے ایک عدد تاثراتی کالم بھی لکھا لیکن موصوف نے آج تک فون کیا اور نہ بالمشافہ اس کا شکریہ تک ادا کیا۔ بہر کیف، ہمیں اس صلہ ستائش سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم نے تو اپنا آپ سوات کے قلم کاروں کی تہنیت اور حوصلہ افزائی کے لیے وقف کررکھا ہے۔ بقولِ فیضؔ 
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے 
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے 
جہانزیب دلسوزؔ اِک کل وقتی لکھاری ہیں۔ نظم کے ساتھ ساتھ نثر، خصوصاً تحقیقی میدان میں بھی اپنی بھر پور توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ یہ تحقیقی شاہکار ’’د پختو صحیح لیک لوست‘‘ کے نام سے منصہ شہود پہ جلوہ گر ہو رہا ہے، جس میں اردو اورانگریزی کااستفادہ بھی ہوگا جسے "The magic gateway to read, write and learn pashto language” کا نام دیا جائے گا۔ اُن کی یہ چار سالہ محنتِ شاقہ یقیناًخاصے کی چیز ہوگی۔ 
لسانی گھمبیرتائیں بڑی پُرپیچ اور گنجلک ہوتی ہیں۔ ذرا سا صوتی آہنگ لفظ کو کیا سے کیا معنی دے ڈالتا ہے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہوگا کہ بڑی ژرف نگہی اور سوچ و بچار کے بعد یہ شاہکار ظاہر کیا جائے (اس میں قیس، ہاشمی اور سعید اللہ خادم جیسے قریبی اساتذہ سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے)۔ جہاں زیب، جہان بھر کو زیب دیتے ہوں یا نہ لیکن ادبی حلقوں میں ضرور زیبا ہیں کہ اپنے دل میں شعر کا بھرپور سوز رکھتے ہیں۔ اسی دلسوزی نے آپ کے تن بدن کو بھی تاڑ کے رکھ دیا ہے۔ جس کی غمازی آپ کی سلونی رنگت کر رہی ہے۔ بہر کیف، آپ مٹہ میں ’’سوات ادبی و ثقافتی غورزنگ‘‘ نامی فعال تنظیم کے صدر بھی ہیں، جو برسوات کی کافی معروف ادبی تنظیم ہے۔ آپ کی ادبی محافل، مشاعرے اور تنقیدی مجالس نو آموزوں کے لیے زادِ راہ ہیں۔ 
اب آتے ہیں آپ کی کتاب ’’نصیب‘‘ کی جانب۔ یہ آپ کا دوسرا شعری پڑاؤ ہے۔ خوبصورت گیٹ اَپ والی یہ مجلد کتاب 208 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں نظموں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ قطعات، رباعیات، مناجات اور ہائیکو کی بھر پور تعداد بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی نے کتاب اور صاحبِ کتاب پہ ’’سوز اور ساز‘‘ کے عنوان سے منظوم پھول برسائے ہیں، جب کہ فخرِ تہکال سیدصابر شاہ صابرؔ نے پشاور سے اپنی محبت کا تحفہ کتاب کے لیے بھیجا ہے۔ سید ایوب ہاشمی نے بھی اپنے مقدمے میں توصیفی دُر لنڈھائے ہیں۔ جب کہ وکیل خیر الحکیم حکیم زئ نے بھی اپنا نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کے علاوہ سجاد، گران اور صمیم نے بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق کتاب پر حاشیے کھینچے ہیں۔ 
کتاب کے ’’فلیپ‘‘ پہ روغانیؔ بابا کی تحریر ہے جب کہ ساجد ارمانؔ کے بنائے خوبصورت ٹائٹل پہ یہ شعر موجود ہے جس میں کتاب کے نام کی رعایتِ لفظی بھی موجود ہے اور صاحبِ کتاب کی اندرونی کیفیات اور موضوعات کا احاطہ بھی، شعر ملاحظہ ہو: 
غمونہ اندیخنے خو بے تپوسہ زڑہ کے اوسی 
لٹومہ خوشحالئی چی خنداگانے پہ نصیب کڑم 
آپ کی شاعری میں ہمیں زیادہ تر حزن، یاس، غم اور اندوہ کی کیفیات کے ساتھ ساتھ مسجد و منبر، پند و نصائح، حجرے کی اقدار، پختونوں کی حالتِ زار، معاشرتی بے حسی اور سوات کے خونی حالات کا ذکر جا بہ جا نظر آتا ہے۔ انہی خونی حالات نے آپ کی ماں کو دائمی معذور جب کہ شریکِ حیات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ سے جدا کر دیا، جس کی جسمانی یاد گاروں میں چھے ماہ کا رہ جانے والا بچہ گردوں کا دائمی مریض ہے۔ شاید انہی یسیر بچوں کے لیے آپ نے یہ شعر لکھا ہے:
مڑاوی گلونو تہ مالی گوتہ پہ خُلہ ولاڑ یم 
اوبہ نوھا شوے خصمانہ د گلو سنگہ اوکڑم 
آپ کی شاعری میں تمام تر فنی لوازمات اپنے بھر پور جلترنگ کے ساتھ موجود دکھائی دیتے ہیں۔ جن میں تشبیہات، استعارات، صنائع بدائع، کنایے یہاں تک کہ محاورات اور ضرب الامثال کو بھی نظم کے پیرائے میں بھر پور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں: 
عشوہ، غمزہ، ادا د خوبرویانو وظیفہ دہ
نیزے غشی چلیگی کربلا دہ زان ساتہ 
اس شعر میں تشبیہ، استعارہ اور کنایہ کے ساتھ ساتھ تلمیح کو بھی بڑے اچھوتے اندازمیں گوندھا گیا ہے۔ مزید لکھتے ہیں:
د ازغو سرہ ئے گاونڈ وی گورے نہ
د گلونو عمرلنڈوی گورے نہ 
د حیا سادر ئے روغ نہ پاتی کیگی 
چی د سپکو پہ گاونڈ وی گورے نہ 
اس میں صنعتِ تضاد ہے جب کہ ذیل کے اشعارمیں محاورے کو برتا گیا ہے، ملاحظہ ہو: 
درومی زوانی واپسی بیا نہ رازی 
تو کلی لاڑے خُلے لہ بیا نہ رازی 
حسن میلمہ دے، رخصتیگی درنہ 
خکلیہ! واپس دی بیا خکلا نہ رازی 
اس مجموعے میں نظموں، قطعوں اور ہائیکو کی بھی بہتات ہے، جن میں ’’مزدور‘‘، ’’کباڑی ماشوم‘‘ اور ’’سوالگرے نہ یم‘‘ جیسی دردناک نظمیں بھی شامل ہیں۔ ’’ایدھی‘‘، ’’خان لالا‘‘ اور ’’د قام سترگے‘‘ نامی نظمیں عقیدت، احترام اور تکریم کے جذبے کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب کہ ’’احساس‘‘، ’’سادہ ئے‘‘ اور ’’میلمنہ ژبہ یم‘‘ اصلاحی اور فکر انگیز نظمیں ہیں۔ اس میں مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی موضوعات کی بھی کمی نہیں۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر لکھتے ہیں: 
ورور د ورور دلاسہ مری لوبہ شورو دہ 
ولے سوچ نہ کڑی زمونگہ مشران 
چی د خپل سادر دننہ خپے سنبھال کڑو 
الغرض اس میں موضوعاتی حوالے سے ہر ذائقہ موجود ہے۔ میرے خیال میں دلسوزؔ کے پہلے مجموعے کی بہ نسبت اس مجموعے کی شاعری پختہ، عمدہ اور پُرتاثیر ہونے کے ساتھ ساتھ باجمال اور با کمال بھی ہے، جو دلوں کو تڑپاتی بھی ہے، رُلاتی بھی ہے اور کہیں کہیں گدگداتی بھی ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ اُن کا یہ سفر اسی طرح آب و تاب کے ساتھ جاری رہے۔ 
دلسوزہؔ شعر دے کمال تہ رسی 
زکہ غزلے دے سمسورے وینم