شہاب شاہینؔ
منشیات (ڈرگز) کی لت ہمارے معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ یہ لت ہمار ے معاشرے میں سرطان کی طرح پھیل رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں آپ کو لوگ ہر جگہ ڈرگز استعمال کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ دینِ اسلام میں بھی نشے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
منشیات انسانی عقل کو متاثر کرتی ہیں۔ یو این او کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً ستّر لاکھ افراد نشہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر اس کی روک تھام کے لیے خاص تدابیرنہیں کی گئیں، تو یہ ہمارے معاشرے کو بہت زیادہ نقصان پہنچائیں گی۔
منشیات پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو سیل نہ کرنے دیا جائے، مگر یہ مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ آج اسی مافیا کی وجہ سے نشہ عام ہے بلکہ سرِ عام ہے۔ روز بروز مہنگائی سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے نشہ کا سہارا لیتے ہیں۔ نشہ ایک پریشانی، اُلجھن اور دکھ ہے۔ منشیات میں سکون تلاش کرنے والے نشے کی لعنت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی میں مزید پریشانی پیدا کرتے ہیں۔ نشہ استعمال کرنے میں زیادہ تر افراد ہیروئن استعمال کرتے ہیں۔
قارئین، آج کی نشست میں بات کرتے ہیں اپنے علاقے سوات کی جہاں یہ لعنت تیزی سے پھیل رہی ہے، مگر ہاں ایک ایسا شخص موجود ہے جو اس کو روکنے کی پوری پوری کوشش کر رہا ہے۔ آپ کو ہمارے معاشرے میں دوقسم کے لوگ ملیں گے۔ ایک وہ جو لوگوں کی جان لیتے ہیں نشے سے، اور دوسرے وہ جو اُن نشے میں مبتلا لوگوں کی جان بچاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی ایک زندہ مثال ہے ایک ایسے شخص کی جو گندگی کے ڈھیر اور گندے نالوں سے ان بچوں، جوانوں اور بزرگوں کو اٹھا کر اپنے پرائیوٹ سنٹر ”نوے جوند رہیب سنٹر سوات“ میں لے جاتا ہے، جہاں ان کی باقاعدہ تربیت اور علاج کیا جاتا ہے۔ جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر مہینے میں دو دفعہ مریضوں کا معائنہ کرتا ہے۔ ہفتے میں دو دفعہ ایک فی میل سائیکاٹرسٹ مریضوں کا چیک اَپ کرتی ہیں، باہر سے مہمان آتے ہیں جو مریضوں کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کے ساتھ ڈھیر سارا گپ شپ لگاتے ہیں۔ اس مسیحا کا نام ریاض احمد حیران ہے۔
مذکورہ سنٹر میں آپ کے اکیس سال سے لے کرستّر سال تک کے افراد نظر آئیں گے۔ اس سنٹر میں تقریباً ساٹھ افراد زیرِ علاج ہیں جن میں بچے، جوان اور بزرگ شامل ہیں۔ ان ساٹھ افراد کے لیے خصوصی لنگر تیار کیا جاتا ہے، جس میں سے دوپہر اور رات کا کھانا، صبح اور شام کی چائے شامل ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ لنگر خود ہی وہ مریض تیار کرتے ہیں۔ریاض احمد حیران صاحب کے بعد اس سنٹر کو فضل نامی لڑکا چلاتا ہے، پوری ذمہ داری کے ساتھ۔ فضل دراصل اس سنٹر کا وہ پہلا مریض ہے جس نے اب اپنی زندگی اس سنٹر کے لیے وقف کردی ہے۔ فضل کسی زمانے میں آئس کا نشہ کرتا تھا جس کے بعد اسے نوے جوند سنٹر نے نئی زندگی دی۔ اللہ کے کرم سے فضل نے کافی محنت اور جدو جہد کے بعد اپنی زندگی بدل دی اور اپنے ماں باپ کو بہت سی خوشیاں دیں۔ پھر فضل کی شادی ہوئی اور اب اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔وہ اب اپنی نئی زندگی سے بہت خوش ہے۔
قارئین، فرمانِ الٰہی ہے کہ ”ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کی زندگی بچانا ہے۔“ سنٹر میں مریضوں کا دن مصروف گزرتا ہے۔ صبح اُٹھ کر ان کو ورزش کرائی جاتی ہے، جس کے بعد فجر کے نماز کا وقفہ ہوتا ہے۔اس کے بعد ان کے لیے ناشتہ تیار کیا جاتا ہے۔ باقاعدہ طور پر ناظرہ کا کلاس لی جاتی ہے۔ اس کے بعد موٹر سائیکل میکینک آتا ہے اور وہ کلاس لیتا ہے۔ پھر نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ کی جانب سے ان مریضوں کو تعلیمی کلاس دی جاتی ہے۔ کلاس کے اختتام پر ان کو دس بجے کی چائے مہیا کی جاتی ہے اور پھر ان کی کونسلنگ کی کلاس ہوتی ہے، جس میں ان کے دماغ میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ نشہ کتنا نقصان دہ شے ہے۔ اس سے ہمارے معاشرے کو کیا کیا نقصانات درپیش ہیں۔ اس کے بعد ظہر کے نماز کا وقفہ ہوتا ہے۔ پھر سنٹر کے تمام مریضوں کو دوپہر کا کھانا دیا جاتا ہے، جس کے بعد ان کے آرام کا وقت ہوتا ہے۔آرام کے بعد ایک قاری صاحب آتے ہیں جو ان کو درس دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان سے سائیکاٹریسٹ انٹرویو لیتا ہے، اور ڈاکٹر صاحب باقاعدہ چیک اَپ کے لیے آتے ہیں۔ پھر عصر کی نماز کا وقفہ اور اس کے بعد ان کے کھیل کا وقت ہوتا ہے، جس میں یہ لوگ والی بال اور بیڈمنٹن کھیلتے ہیں۔ پھر مغرب کی نماز کا وقت اور اس کے بعد رات کا کھانا اور ٹی وی دیکھنے کا وقت ہوتا ہے۔ آخر میں موسیقی کی کلاس لی جاتی ہے جس میں یہ لوگ گانا وغیرہ سنتے ہیں۔ یہ ان کے تمام دن کا روٹین ہوتا ہے۔
قارئین، ایک ایسے شخص کی جو اپنی مدد آپ سوات میں ایک ایسا ادارہ چلا رہا ہے، جس سے بہت سے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں، اس کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ ”نوے جوند ریہب سنٹر“ کی بنیاد ریاض احمد حیران صاحب نے دو سال پہلے رکھی ہے۔اس کے علاوہ موصوف پشتو زبان کے شاعر اور سماجی کارکن ہیں۔ اس ادارے سے آج تک تقریباً تین سو افراد علاج کرچکے ہیں اور اب ایک نئی زندگی جی رہے ہیں۔
قارئین، اس ادارے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو چلانے والے بھی کبھی نشہ کرتے تھے، وہ اس درد سے آشنا ہیں۔ اب ان میں سے بیشتر نے اپنی زندگی اس تنظیم کو وقف کردی ہے۔ یہ ادارہ اپنی مدد آپ کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ جو کام حکومت کا ہے، وہ عوام کررہے ہیں۔ ان کی مدد حکومت کے ساتھ ساتھ ہم عوام پر بھی فرض ہے۔ سنٹر میں چالیس سے زیادہ افراد بالکل فری زیرِ علاج ہیں۔ بیس افراد جو کہ امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، کچھ ان کے مہینے کے خرچ سے اس بھی سنٹر کو چلانے کی سبیل نکالی گئی ہے۔ہم بس اللہ سے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ ان کو طاقت دے، تاکہ یہ ہمارے معاشرے کی خدمت کرتے رہیں۔