ساجد ابوتلتان
’’کوہستان ترقیاتی تنظیم‘‘ وادیِ کالام میں لائکوٹ والوں کی ایک فلاحی و بہبودی تنظیم ہے۔ ویسے تو لائکوٹ کے محمد عالم قاضی نے تنظیم کی چیدہ چیدہ باتیں پہلے ہی بتا دی تھیں، لیکن مکمل آگاہی اس وقت ہوئی جب عیدالاضحی کے موقع پر خود لائکوٹ جانا پڑا۔مذکورہ تنظیم، نام سے تو کوہستانیوں کی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں یہ گوجروں کی تنظیم ہے۔ 2004ء کو وجود میں آنے والی اس تنظیم نے اب تک کروڑوں روپے خرچ کرکے متعدد رفاہی کام کیے ہیں۔ مثلاً بر لائکوٹ کی سڑک اور مائیکرو ہائیڈل پاور’’ایس آر ایس پی‘‘ کی مدد سے بنوائے۔ اریانہ، اشاڑو پٹی اور کھیت وغیرہ میں واٹر سپلائی سکیمیں مکمل کیں۔ اسی طرح متعدد اداروں کے ذریعے راشن کی تقسیم اور ’’ای پی ایس‘‘ کے توسط سے لیٹرین تعمیر کرنے کے منصوبے وغیرہ اس تنظیم نے مکمل کیے۔تنظیم کے بنیادی ارکان میں ملک محمد ریاض، ڈاکٹر شمس الرحمان شمس اور حاجی محمد اسحاق وغیرہ شامل ہیں۔ جو اَب تک تنظیم سے اپنی ایمان داری اور وفاداری نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ موجودہ کابینہ صدر ملک طالع مند استاد صاحب، جنرل سیکرٹری حافظ احمد رضا اور سینئر وائس چیئرمین محمد عالم قاضی وغیرہ پر مشتمل ہے۔ تنظیم میں دیگر عہدے دار اور رضاکار بھی شامل ہیں جن کا ذکر کالم کی تنگ دامنی کے باعث نہیں کیا جاسکتا۔ راقم نے مذکورہ رضا کاروں اور عہدیداروں کو اس وقت دیکھا جب یہ لوگ عید الاضحی کے موقع پر اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے ادائے فرض کے طور پر ایک ساتھ چھے جانور ذبح کر رہے تھے۔ اسلامی تہوار یعنی عیدِ قربان جو حج کے آخری دن اور دسویں ذی الحجہ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، راقم نے مذکورہ تنظیم کے رضاکاروں کے ساتھ لائکوٹ میں منایا، جہاں ’’المصطفیٰ ٹرسٹ‘‘ کے تعاون سے کوہستانی ترقیاتی تنظیم کے زیرِ سایہ ذبح کیے جانے والے جانور، مشاق ذباح اور ان کی معاونت کرنے والی تنظیم کے رضاکار قربان گاہ میں آئے ہوئے تھے۔ چھے جانوروں کی یہ قربانی ان مقامی لوگوں کے لیے کی جا رہی تھی، جو قربانی کرنے سے قاصر تھے۔ ندی لائکوٹ کے کنارے کی یہ قربان گاہ کالام جانے والی سڑک کے پل سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ جہاں سے مریم حنا اور راقم اس کا نظارہ کرتے رہے۔ یہ لوگ ذبح کرنے میں خاصی مشاق دکھائے دے رہے تھے، جبھی تو ذبح سے لے کر گوشت کی تقسیم تک کا پورا مرحلہ بڑی تیزی سے طے ہوا۔ جیسے ہی گوشت کی تقسیم کا عمل مکمل ہوا، تو قربان گاہ کی صفائی کی گئی جس کے بعد راقم کو وہاں موجود مختلف ذمہ دار لوگوں سے انٹرویو لینے کا موقع ملا۔ ان کی گفتگو سے بات واضح ہوئی کہ یہ لوگ آپس کی محبت اور بھائی چارے کا خوب درس دیتے ہیں۔ جب کہ تنظیمی نظم و ضبط سے ظاہر ہوا کہ جس طرح ان لوگوں میں گھاس کاٹنے، تعمیراتی کام کرنے اور تعمیراتی لکڑی جنگل سے لانے کے لیے ’’اشر‘‘ کیا کرتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اس جدید تنظیم میں فلاحی کام بھی اتفاق سے سرانجام دیے جاتے ہوں گے۔ اور ایسا کیوں نہیں ہوتا ہوگا، جب شمس الرحمان شمس جیسے جہاں دیدہ، حاجی محمد اسحاق کی طرح قوم پرست، محمد عالم جیسے صادق اور امین، احمد رضا جیسے امانت دار، طالع مند استاد صاحب جیسے مخلص اور ملک بخت روان جیسے ایمان دار شخصیات اس تنظیم کو چلا رہی ہوں۔قارئین، درحقیقت کوہستان ترقیاتی تنظیم دیہی معاشرے کی ایک عدیم المثال تنظیم ہے۔ کہتے ہیں کہ بہترین تمدن وہ ہے جس میں کسی فرد کا خود پر کنٹرول اور دوسروں تک رسائی ممکن ہو۔ واقعی اگر ایسا ہے، تو بہت جلد لائکوٹ والے بہترین تمدن قائم رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔