ایڈووکیٹ نصیراللہ
پرائیویٹائزیشن اس ملک کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے مَیں کچھ امور پر بحث کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ پرائیویٹائیزیشن کے فوائد اور نقصانات دونوں ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کا بھی تذکرہ کیا جانا اہم ہوگا۔ اس لیے ضرورت یہ ہے کہ تمام بڑے اداروں کا سرسری جائزہ پیش کیا جائے، اور ساتھ ساتھ اداروں پربوجھ بنے بیٹے سرکاری عمال کے بابت بتایا جائے کہ وہ کس طرح قومی خزانے پر بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ ریاست مزید ان کے بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ان کی تنخواہیں قرض لے کر پوری کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ خود سرکاری عمال سرکاری اداروں کے لیے کینسر بن چکے ہیں،جو کہ سرکاری اداروں کو کھوکھلا کیے جا رہے ہیں، بلکہ اب ایسا وقت ہے کہ حکومت کو دوغلی پالیسی چھوڑ کر عوام میں اس سنگین مسئلے پر آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ دیمک زدہ معیشت ان اداروں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ حکمرانوں کو ”پولی ٹیکل وِل“ بنا کر اس پر جلد از جلد قانون سازی کرنے کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ موجود ہے۔ حکومتی اداروں میں وسائل کی کمی اور ہیومن ریسورس کے فقدان نے اس مسئلے کی نزاکت کو مزید پیچیدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان اداروں اور بیوروکریسی کی نااہلی دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس طرح مملکت کے ہزاروں مسائل ہوتے ہیں، اس طرح ان اداروں میں بھی ہزاروں مسائل ہوتے ہیں، جس کا بلا واسطہ اثر عوام پر پڑتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں مذکورہ ادارے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ مزید اداروں کے لیے قانون سازی کرکے حکومت کو حکمت عملی وضع کرلینی چاہیے۔ تاکہ پہلے سے موجود مسائل کے ساتھ نمٹا جاسکے، اور جو جدید مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان کا سدِ باب کیا جاسکے۔ جن اداروں کی پرفارمنس اچھی نہیں ہوتی، ان کو تابع قانون، غیر جانب دار، غیر سرکاری اداروں، آرگنائزیشنز دوسرے ممالک کو تجربے کے بنیاد پر حوالہ کیا جانا چاہیے، جس سے قومی خزانے پر سرکاری عمال اور سرکاری اداروں کے اخراجات کو کم کرنے میں آسانی پیدا ہوجائے گی۔ سرکاری آفیسر کے علاوہ بیوروکریسی پرائیویٹ بزنس پر بھی اپنا حق مانتی ہے۔ اس پر بھی بس نہیں، یہی افسران پرائیویٹ بزنس کرکے عوام کی چمڑی ادھیڑنے کے درپے ہوتے ہیں۔
قارئین، مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ریاستی اداروں پر پاکستان کے کل بجٹ کا تقریباً نوے پرسنٹ بوجھ پڑتا ہے۔ عوام کو اس مد میں کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ حال یہ ہے کہ حکومت کے پاس سرکاری اداروں کے افسران کی تنخواہوں کا بندوبست بھی نہیں۔ ان اداروں کی کوالٹی سروس کا تصور بھی یہاں پر محال ہے۔ بس جس کا جس جگہ جی چاہے سرکاری فنڈ میں خورد برد کرے، رشوت لے، اقرباپروری کرے، اور دوسروں پر ظلم اور عوام کا استحصال کرے۔ ان اداروں میں کرسی پر بیٹھے افسر کی مثال فرعون جیسے ہوتی ہے۔ دیگر افسران صرف فائلیں فائلیں کھیلتے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ افسران ہر وقت میٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں۔ ڈیوٹی ٹائم کی ان افسروں کے ساتھ کوئی فکر نہیں ہوتی، جس وقت آنا اور جانا چاہیے، ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ سرکاری ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ بزنس کر نے سے نہیں چوکتے۔ ہر قسم کی مراعات، پنشن، گراٹی چیوٹی، بینوولنٹ فنڈ، لیو انکیشمنٹ، ہر قسم بونسز، پٹرول ڈیزل کا خرچ، سرکاری گاڑیاں، ”خرچہ خوراکہ“، گھروں کے اخراجات، ملازموں کے دیگر سرکاری عمال کی ڈیوٹی ان کے لیے سب متعین ہوتا ہے۔ لاکھوں کی تنخواہیں ا س کے علاوہ ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ کلاس فور سے لے کر بی پی ایس 12 کے علاوہ بڑے افسران دراصل حکمران اشرافیہ کے برابر ہوتے ہیں۔ ان میں اور حکم رانوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ دونوں ہی طاقت، غرور، تکبر اور فرعونیت کا نمونہ ہوتے ہیں۔ کام کچھ نہیں اور مراعات، تنخواہیں، پنشن وغیرہ بہت زیادہ جو کہ اس ملک کے عوام کے ساتھ ایک المیہ ہے۔اس کے ڈائریکٹ اثرات عوام اور سرکاری خزانے پر پڑتے ہیں۔ ان صاحبان کو جس کام کے لیے ان اداروں میں بھیجاجاتا ہے، یہ ان کے خلاف ہی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف ان اداروں کا فیئر آڈٹ بھی ممکن نہیں ہوتا۔ شفافیت کا یہاں پر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان اداروں میں کرپشن کا دور دورہ ہوتا ہے۔ میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رشوت ستانی اور سفارش ان اداروں کا دوسرا بڑا کام ہوتی ہے۔ یہ صرف دعوی نہیں بلکہ اس کے لیے تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنی ہوگی۔ کسی بھی سرکاری ادارے میں جاکر اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال کے مطابق داخلہ، خارجہ او ردفاع کو چھوڑکر تمام اداروں کی نج کاری ضروری ہوچکی ہے۔ دفاع کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ ان کے شفاف آڈٹ کا انتظام کیا جانا چاہیے اور ان میں مناسب کٹوتیاں کرنی چاہئیں۔ سرکاری اداروں کو ٹھیکوں وغیرہ سے منع کرنے کے لیے پالیسی وضع کرنی چاہیے۔ پھر دیکھیے کہ معیشت کا پہیا کیسے نہیں گھومتا۔ پرائیویٹائز ہونے کی صورت میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کے مابین مقابلہ بازی شروع ہو جائے گی، جس سے عوام کو فائدہ ملے گا۔ پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے عوام کو کوالٹی سروسز مہیا ہونے کا ایک میڈیم ہاتھ آئے جائے گا جو کہ میرا خیال ہے عوام کے حق میں ہوگا۔ اگر پھر کوئی ادارہ اس کام میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہو، تو عدالت کے ذریعے اسے سزا دلوائی جا سکتی ہے۔ البتہ ان اداروں کے کچھ فوائدبھی ہیں جو کہ بعض منظورِ نظر افراد کو ان اداروں کی طرف سے منفعت ملتی رہتی ہے۔ کبھی کبھار غریب عوام بھی ان اداروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ تاکہ ان کی دھاک بیٹھی رہے۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح عوام کام کرتے ہیں، اس طرح ان اشرافیہ کو بھی کام کرکے پیسے ملنے چاہئیں۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ان فلاپ شدہ ضخیم اداروں کو پرائیوٹائیز کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس سے ہوگا یہ کہ ملک کی اکانومی پر اچھا اثر پڑے گا۔ آئی ایم ایف اور غیر ملکی قرضوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوجائے گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان اد اروں کو غیر ملکی، غیر جانب دار فرموں اور آرگنائزیشن وغیرہ کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے، بلکہ ان کے ساتھ ایک خاص مدت کے لیے کنٹریکٹ کیا جائے۔لیز پر یا جیسا حکومت چاہے دے۔حکومت ان کے ساتھ اپنا پلان شیئر کرے۔ خاص شرائط و ضوابط کے مطابق ہی ا ن کو ادارے حوالے کیے جائیں۔ بس خدارا، جس طرح بھی ممکن ہو ملک کو مزید تباہی و بربادی سے بچایا جائے
پرائیویٹائزیشن ناگزیر
