ایڈووکیٹ نصیراللہ
دراصل مذہبی شدت پسندی، جنونیت اور رجعت پسندی ایک ’’مائنڈ سیٹ‘‘ کا نام ہے۔ ذکر شدہ مذہبی انتہا پسندی اسّی کی دہائی میں جہادی بیانیہ کے ذریعے عوام کے ذہن میں انڈیلی گئی۔ انہی لوگوں کو امریکہ کے اتحادی کے طور پر اور روس کے خلاف جنگ پر ریڈیو، ٹی وی اور اشتہارات کے ذریعے اُکسایا گیا۔ یاد رہے کہ اسی ’’مائنڈ سیٹ‘‘ کو پیدا کرنے میں ریاستی اداروں کا حصہ رہا ہے۔ حتی کہ اس کے لیے مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی گئی۔ مدارس کو جنگی اور جہادی ٹریننگ کا مرکز بنایا گیا۔ یہ تمام کتابی مواد آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے زیر سایہ ترتیب دیا گیا۔ مذکورہ مواد اب تک مستعمل ہے۔ یہ اِسی ذہنیت کا اثر ہے کہ عبد الولی خان یونیورسٹی مردان میں کس بے مثال بے شرمی سے مشال کو بلاسفیمی اور توہینِ رسالت کیس میں قتل کیا جاتا ہے۔ بس کسی پر بھی توہینِ رسالت کا لیبل چسپاں کرو اور بعد میں اُسے مار دو۔ کیا یہی انسانیت ہے؟ ایک تعلیمی یونیورسٹی میں اس طرح کے واقعات کا ہونا ایک فکری المیہ ہے۔ اس طرح کے واقعات دوسرے جامعات میں بھی رپورٹ کیے گئے ہیں۔ اس ذہنیت کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ مثال کے طور پر جہادی بیانیہ مرتب کرتے وقت جہادیوں کو پیسوں اور مذہب کی خاطر امریکہ اور روس کی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی صورت میں امریکہ کا دبے پاؤں افغانستان سے نکل جانا اس صورتحال کو مزید بے قابو کرنے کا ذمہ دار ہے۔ افغانستان میں طالبان کی گورنمنٹ سعودی، پاکستان اور امریکہ کی تائید سے بنانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوجانا اور مذکورہ واقعے کے بعد امریکہ بہادر کاافغانستان کی طالبان حکومت کو ختم کرنے کے لیے حملہ کرنا، اس کے ساتھ ساتھ عراق، لیبیا اور شام پر حملہ کرنا اور بعد کے واقعات میں دوبارہ طالبان کا ابھرنا اور افغانستا ن کی جنگ میں شرکت اسی ذہنیت کی غماز تھی۔ اُس وقت پاکستان کی ’’طالبان گورنمنٹ‘‘ کی کھلی حمایت سے بھی اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس سارے عرصے میں امریکہ بہادر کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے پاکستان میں اسّی ہزار افراد کو شہید کیا گیا۔ انفراسٹرکچر، معیشت، انڈسٹری الغرض سب کچھ تباہ و برباد کر دیا گیا اور امریکہ بہادر کی ’’ڈو مور‘‘ کی رٹ تاحال جاری ہے۔ ان سب واقعات کے بعد ہماری ریاست کی اس مخصوص’’مائنڈ سیٹ‘‘ سے نمٹنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ذیل میں میری کچھ گذارشات ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے، تو شائد اس عفریت پر قابو پالیا جائے۔
1:۔ حکومت تمام مذہبی گروہوں یعنی فرقوں کے لیے متفقہ طور پر یکساں لائحہ عمل تیار کرے۔ اقلیتوں کی جان و مال اور دیگر مذہبی اور سماجی حقوق کو تحفظ دیا جائے ۔
2:۔ قرآن کے علاوہ تمام فرقوں کی کتب اور روایات کا جائزہ لیا جائے۔ قرآن سے متصادم تمام مواد نکال لیا جائے۔ تشدد کا حق، ریاست کو آئین اور قانون دیتا ہے، اس لیے جو بھی شخص یا اشخاص ریاست یا کسی فرد اور یاکسی ادارے کے خلاف اسلحہ اٹھائے، اور بعد از قانونی چارہ جوئی بغاوت کا مرتکب ٹھہر جائے، تو اس کو جیل میں ڈالنا از حد ضروری ہے۔
3:۔ قرآن کی آیتوں کی تشریح اور توضیح کے لیے ایک سنٹرل اتھارٹی مقرر کی جائے، جس کا مقصد یہ ہو کہ مذکورہ اتھارٹی اس کی تشریح و توضیح کی ذمہ دارہوگی۔ نیز ان کے لیے اصول اور قانون کی پابندی رکھی جائے۔ تمام مسلکی اختلافات، مناظروں اور مذہبی دھرنوں وغیرہ پر پابندی لگادی جائے۔
4:۔ بین المذاہبی ہم آہنگی کے ادارے کو فعال کیا جائے اور تمام اقلیتوں کواس میں نمائندگی و تحفظ دیا جائے۔ نیز اقلیتوں کو سرکاری اداروں میں نوکریوں کے یکساں مواقع دیے جائیں۔
5:۔ قرآن کو مسلمانوں کا دستور مانا جائے۔
6:۔ کسی غیر ملکی حملے پر جہاد صرف ملکی افواج کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ اس لیے غیر ضروری طور پر جہاد کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے ساتھ قانونی طور پر نمٹا جائے۔
7:۔ تعلیمی نصاب سے فرقہ وارانہ تعصبات کو نکال باہر کرنا چاہیے۔ ضروری اسباق کو چھوڑ کر غیر ضروری اسباق کو نصاب وغیرہ سے نکالنا اہم ہے۔ ریاست کی معتدل تشریحات کے علاوہ بقایا تمام تشریحات کو غیر قانونی قرار دیا جائے یا کم از کم ان پر روک ڈالناچاہیے۔
8:۔ ہر فرد کو جو قانونی اور آئینی مذہبی آزادی میسر ہے، اس کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔
9:۔ توہینِ رسالت کے قانون میں تبدیلی وقت کا ضروری تقاضا ہے۔ نیز جو کوئی توہین کا مرتکب ہو، ان کو قانونی طور پر سزا دینے کا اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہے۔ اس لیے ’’از خود‘‘ طور پر سزا و جزادینے والوں کے لیے قانون کے اندر رہتے ہوئے راہنمائی اور سزا کا تعین کرنااز حد ضروری ہے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!