ایڈو کیٹ نصیراللہ
مزدور کے حقوق اور فرائض کا تعین، قانونِ مزدور کی رو سے ہوتا ہے۔ ورک مین وہ شخص ہے جو کسی کمپنی، آرگنائزیشن وغیرہ میں مخصوص اُجرت پر کام کرتا ہے اور اپنی منفعت کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
ورک مین کی تعریف یہ ہے کہ کوئی فرد جو ملازمت یا ہنر میں مخصوص مہارت رکھتا ہو، ورک مین کہلاتا ہے۔ قانونِ مزدور جس کو ”لیبر لاز“ کہتے ہیں، عام طور پر ٹریڈ یونینوں، آجروں اور حکومت کے مابین تعلقات سے متعلق قانون ہے۔ پاکستان میں تقریباً 51.78 ملین مزدور ہیں جو کہ کل آبادی کا 32.2فیصد ہیں، جس میں دس سال یا اس سے اوپر کی عمر کے مزدور افراد بھی شامل ہیں۔ یہی مزدور پوری ملکی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
پاکستان کے آئین میں شہریوں سے ہر طرح کی جبری مشقت لینا ممنوع ہے۔ 14 سال سے کم عمر کا کوئی بچہ کسی فیکٹری کے کام میں مشغول نہیں ہوسکتا۔ آرٹیکل 17 کے توسط سے ہر شہری کو قانون کے تابع ایسوسی ایشن یا یونین تشکیل دینے کا حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 18 ہر شہری کو کسی بھی قانونی پیشے میں داخل ہونے کا حق دیتا ہے۔ اس طرح کسی بھی قانونی تجارت یا کاروبار کے لیے کسی شخص کو منع نہیں کیا جاسکتا۔ آرٹیکل 25 تمام شہریوں کو قانون کے مطابق برابر کے حقوق دیتا ہے اور وہ قانون کے مطابق یکساں تحفظ کے حق دار ہیں۔ کسی کے ساتھ پیدائش کی جگہ، جنس، رنگ اور نسل کے بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست ماں کی مانند ہے۔ اس طرح ریاست لوگوں کی فلاح و بہبود کا تحفظ کرے گی، چاہے وہ کسی بھی جنس، ذات پات، مسلک یا نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ ملازمین اور مالکان کے مابین حقوق میں یکساں طور پر ایڈجسٹمنٹ کو یقینی بنا جائے گا۔ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام شہریوں کی عزت نفس کو یقینی بناتی ہے اور اس کے تحفظ کی گارنٹی دیتی ہے۔
میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان حقوق کا تذکرہ جو زیرِ نظر سطور میں کیا گیا ہے کہیں اور کسی بھی جگہ دستیاب نہیں، اور اگر ہے بھی، تو ان کا اطلاق بہت کم مزدور اور ورک مِن پر ہوتا ہے۔ ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ایسے میں کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت خراب ہے۔ خراب کیوں نہ ہو۔ کسی کا حق بھی تو کسی طرح نہیں ملتا۔ مجموعی طور پر عدالت بھی اس امر کے ذمہ دار ہے کہ وہ قانون کی تشریح کرتے ہوئے اس امر کو سراسر بھول کر نظر انداز کرجاتے ہیں کہ اس ملک میں مزدور کے اوقات کتنے کٹھن اور سخت ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان کو مراعات ملتیں، آئے روز ان کے حقوق چھینے جاتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ عدالت اس وقت اس پر اپنا فیصلہ دے گی جب اس کے سامنے اس طرح کا مقدمہ ہوگا اور وہاں حقائق کی بنیاد ایسا فیصلہ صادر کیا جائے جس میں سب مزدوروں کے لیے ایک معرکۃ الآرا فیصلہ کیا جائے۔ حکومت نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں، جو بچی کچی مراعات ملتی ہیں، وہ صرف من پسند ورک مینوں کو ملتی ہیں۔
درحقیقت ورک مین کے لیے میڈیکل، رہائش، بچوں کی تعلیم اور اینکریمنٹ لگتے ہیں۔ اس کے لیے دیگر فوائد گراٹیچیوٹی اور بونسز کی مد میں ملتے ہیں، وہ ان سب کے علاوہ دیے جاتے ہیں۔ یاد رہے یہی ورک مین کے بینیفٹس بھی شائد ایک پرسنٹ مزدوروں کو ملتے ہوں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ تمام کمپنیاں، فرم اور آرگنائزیشن مذکورہ فائدے دیتے ہوں گے۔
ورک مین کی تعریف کے مطابق چوکیدار، سٹاک مین اور ڈرائیور وغیرہ ورک مین کے تعریف سے باہر ہے۔ اس نسبت سے میرا خیال ہے کہ مزدور یونین مزدوروں کے حقوق کے لیے ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتا ہے، تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ یہی مذکورہ مزدور یونین مزدوروں کے حقوق کے منافی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
دراصل وہ سرگرمی جس میں دماغی یا جسمانی کاوش شامل ہوتی ہے، جس سے کسی کمپنی یا فرم کے مقصد یا مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مشقت اور کام کیا جاتا ہے۔ ملازمت اور مزدوری یعنی ورک مین شپ کہلاتی ہے۔ جس میں کام ادا کرنے کی باقاعدہ اجرت ادا کردی جاتی ہے۔ تاہم ہنر مند لیبر صرف کام نہیں کرتا۔ بعض اوقات نوکری کرنے کے دیگر طریقے کو سوچنے اور جب مناسب ہو، تو نئی تکنیک اور ٹیکنالوجی کو ملازمت میں شامل کرتے ہیں۔ ہنرمند ورکر کے پاس کام کو سر انجام دینے کے لیے خاص قسم کی ٹریننگ پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ جب کہ غیر ہنر مند مزدوری کا مطلب صرف ایسی ملازمت سے ہوتا ہے جن میں تکنیکی تربیت اور مہارت کی کمی ہوتی ہے۔ بعض ایسے بھی ملازمین ہوتے جن کے پاس وسیع نہیں لیکن کچھ نہ کچھ تجربہ اور تربیت موجود ہوتی ہے۔
قانون کے مطابق کسی بھی مزدور کو آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ آٹھ گھنٹے کے بعد اوور ٹائم کے چارجز علیحدہ ہوتے ہیں۔ مزدوروں کی صحت اور فلاح و بہبود کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مزدوروں کو آرام، کھانے اور مذہبی سرگرمیوں کے مناسب وقفوں کی سہولت لازمی ملتی رہے۔
یہ ایک قول ہے کہ پائیدار امن صرف معاشرتی انصاف کے ذریعے ہی دیا جاسکتا ہے۔ دوسری بات کہ انفارمل ویجز کا اب تک حکومتی سطح پر کوئی معیار نہیں بنایا جاسکا ہے، جس کی وجہ سے کمپنیاں مستقل ورکرز کے بجائے روزانہ اجرت کی بنیاد پر مزدور رکھتے ہیں، جس سے ان مالکان کو مزدور کے دیگر بینفٹ سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور باآسانی چور دروازے سے اپنا کام نمٹاتے ہیں۔ حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اسکلڈ اور نان اسکلڈ ورکرز کی تفریق کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام مزدور کاروں کی علاقائی طور پر فہرستیں مرتب کرنی چاہئیں اور ان کا ڈیٹا کلکٹ کرنا چاہیے۔ مزدوروں سے ان کے کام کی بابت رپورٹیں لینی چاہئیں اور ان کے ساتھ ہر قسم کی بے انصافی ہونے کی صورت میں متعلقہ شعبوں، کمپنیوں، آرگنائزیشن، ہوٹلوں، مستری خانوں، کوئلہ کی کانوں، دیگر کانوں، زراعت سے وابستہ تمام جگہوں وغیرہ کو سیل کرکے کارروائی کرنی چاہیے۔ کم از کم ان کی مطلوبہ داد رسی کی جانی چاہیے۔ تاکہ مزدوروں، آجروں کے جملہ معاملات اور ناانصافیوں کو حل کیا جاسکے۔ مزدور بسا اوقات مالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ جب جی چاہا بھرتی کیا، جب جی چاہا نکال لیا، جس سے مزدور کی زندگی غلام سے کم نہیں ہوتی۔ ان کو ہر وقت کام سے نکلنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے، جس کی وجہ سے چار و ناچار ان کو غیر قانونی کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان مزدوروں کے لیے کوئی سوشل سیکورٹی کا قانون موجود نہیں یا کم ازکم میرے علم میں نہیں آیا ہے۔
یہ کیسا قانون و انصاف ہے! یہ کیسا ملک اور اس کے ادارے ہیں، جس مزدور نے اس ملک کی عدالتوں، پارلیمنٹ اور اداروں کی اینٹیں رکھی ہیں۔ ان کے لیے اپنا لہو بہایا اور اپنا خون پسینہ ایک کیا۔ جس نے ملک کے لیے ہر وقت قربانیاں دی ہیں۔ جس نے دن رات ایک کرکے ملک کی ترقی کے لئے انتھک محنت کی۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی یہ ملک خداداد ہے، لیکن شومئی قسمت کہ ان کی زندگی ان پر اجیرن کردی گئی ہے۔ ایسے میں کوئی موجود نہیں کہ ان مزدوروں کے آئینی، قانونی، شرعی، انسانی اور اخلاقی حقوق و فرائض کا دفاع کرے اور مزدوروں کو ان کو حق دلائے۔
یاد رکھیے، معاشرے زیادہ دیر تک ظلم کے ساتھ نہیں چل سکت۔ مزدور بھی انسان ہے اور ان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ ان حقوق کی پاس داری نہ کرنا بغاوت کو دعوت دینا ہے۔ اس لیے تیار رہنا چاہیے۔
تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظرِ روزِ مکافات