میاں گل عبدالحق
بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ منشیات فروشی کا دھندا بھی سرعام جاری ہے، جس کی لپیٹ میں ضلع سوات کا ہر علاقہ آچکا ہے۔ جہاں منشیات کے مراکز میں یہ مکروہ دھندا زور و شور سے جاری ہے اور ذمہ دار عملہ کی موجودگی کے باوجود یہ کاروبار بڑے دھڑلے سے ہو رہا ہے، وہاں متعلقہ ذمہ دار ادارے خاموش تماشائی کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ حالاں کہ”خپل وزیراعلیٰ“ پولیس کی کارکردگی پر فخر بھی کرتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ آئی جی پی خیبر پختونخوا ڈاکٹر نعیم خان پولیس فورس کی کارکردگی بہتر بنانے کی خاطر ان میں انعامات بھی تقسیم کرتے رہتے ہیں۔
مگر گنگا الٹی ہی بہہ رہی ہے۔ کیوں کہ اس ذمہ دار محکمہ کی موجودگی میں اس مکروہ فعل میں روز بروز ترقی ہو رہی ہے۔ ہماری تجویز اور اپیل ہے کہ خیبر پختونخوا کے آئی جی پی صاحب کبھی سوات کا مع اپنی ٹیم اچانک وزٹ کریں اور عوام کے ساتھ کھلی کچہری میں ملاقات کریں۔ انہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا کہ ان کی زیرِ نگرانی محکمے کی کارکردگی کا کیا حال ہے؟ اور ذمہ دار لوگوں کا کردار کیا ہے؟
قارئین، میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا سوات میں کبھی منشیات فروشوں کو لگام دیا جائے گا؟ یا صرف میڈیا اور کاغذی کارروائی ہی پر اکتفا کیا جائے گا۔
جناب آئی جی پی صاحب کی خدمت میں ان سطور کے ذریعے عرض ہے کہ اس سلسلے میں اپنی ڈیوٹی میں غفلت کرنے والوں اور ان کی موجودگی میں یہ مکروہ دھندا کرنے والے اہل کاروں کو ضلع سوات سے فوری طور پر تبدیل کرنے کے احکامات صادر فرمائے جائیں۔ آج جب کہ سوات کی ہر گلی اور کوچے میں منشیات کا مکروہ دھندا جاری ہے، اس کی وجہ سے نوجوان اور سکولوں کے بچے تک عادی ہو رہے ہیں۔ والدین سخت پریشان اور ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ عادی بچے اپنے نشے کے لیے چوری، راہزنی اور دوسرے غیر اخلاقی کام کرنے سے نہیں چوکتے۔ ایسے می وہ اپنے والدین کے لیے بھی اور معاشرے کے لیے بھی درد سر ہی بنتے جا رہے ہیں۔
جناب آئی جی پی صاحب، اس حوالہ سے سوات کے عوام آپ کے رحم و کرم کے منتظر ہیں!