روح الامین نایابؔ
قارئین کرام! آج کل مینگورہ جانا اور واپس آنا آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہے۔ فضاگٹ سے ہی انسان ایک خوفناک ٹریفک میں پھنس جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ رینگنا پڑتا ہے۔ ٹریفک کا ازدحام، سست رفتاری اور پھر اوپر سے رشکوں کا بے ہنگم شور، موٹر سائیکلوں کی تیز رفتاری، ہتھ ریڑھی اور ٹھیلے کے بغیر ہارن انٹری، پیادہ لوگوں کی چھلانگیں، یہ سب انسان کو پاگل بنانے کے لیے کافی ہیں۔ لوگ سر درد، بلڈ پریشر اور الرجی کے مریض بن چکے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود مینگورہ آنا لازمی ہے۔ آنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ہر شریف آدمی کو روزانہ ان سخت جان اور مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ سن 1950ء اور 1960ء کی دہائی کی سڑکیں اور اس پر اکیسویں صدی کی ٹریفک، لازمی نتیجہ سردرد اور بلڈ پریشر ہی ہوگا۔ وقت اور صحت دونوں الگ سے تباہ و برباد ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
صرف سڑکوں پر جگہ جگہ ٹریفک پولیس کھڑی کرکے اشارے کرنا، نعرے لگانا، سیٹیاں بجانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر موٹر سائیکل اور رکشے کیڑے مکوڑوں کی طرح دوڑتے رہے، ٹریفک کے اصولوں کو پائمال کرتے رہے، تو رش تو رہے گا۔
مینگورہ کی تنگ سڑکوں پر رواں دواں رہتے ہوئے کچھ عجیب نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دکان دار حضرات نے دکان کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ جمایا ہوا ہے۔ ہر دکان دار نے اپنی دکان سے دو، تین فٹ بازار کی طرف اپنی موٹر سائیکل عجیب زاویے سے کھڑی کرنا اپنے اوپر لازمی قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے کہ دکان کے سامنے کوئی اپنی موٹر گاڑی کھڑی نہ کرسکے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ دکان دار کی کتنی جابرانہ اجارہ داری ہے اور اس سے مینگورہ کی تنگ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کتنی مشکل اور سخت جان ہوجاتی ہے؟ اگر آپ اپنی موٹر ان موٹر سائیکلوں کے برابر کھڑی کر دیں، تو روڈ مزید تنگ ہوجاتی ہے اور ٹریفک کی روانی میں اور مسئلہ پیش آتا ہے، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ پولیس بجائے اس کے کہ ان ”جابرانہ موٹر سائیکلوں کے خلاف کارروائی کرے، وہ آپ ہی کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے، کہ آپ نے گاڑی سڑک کے درمیان کھڑی کردی ہے۔ معلوم نہیں کہ پولیس کو موٹر سائیکل والوں کے آگے کیا مجبوری ہے؟ اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ دکان دار اپنی موٹر سائیکلیں کہیں دور، بازار کے پیچھے گلی کوچوں میں پارک کریں، اور باہر سے آنے والے خریداروں کی گاڑیوں کے لیے دکانوں کے آگے جگہ خالی چھوڑ دیا کریں۔ لہٰذا مینگورہ کی ٹریفک انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ بازار سے موٹر سائیکلوں کو باہر نکال دیں اور بازار میں پارکنگ ممنوع قرار دے دیں۔
میرے خیال میں مینگورہ میں رکشوں پر ٹریفک قانون لاگو نہیں ہوتا۔ وہ جہاں چاہیں رکشہ پارک کردیتے ہیں، وہ جہاں جی چاہے سواری سوار کرتے اور اُتارتے ہیں۔ جہاں اور جس وقت چاہیں رکشے کو فوراً موڑ دیتے ہیں۔ بے شمار اور بے انتہا رکشوں نے مینگورہ کی ٹریفک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ سب سے پہلے اہم کام یہ ہے کہ رکشوں کی تعداد کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ اس میں صرف سوات کے نہیں بلکہ پورے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے رکشے آئے ہیں، اور وہ سب یہاں دندناتے گھوم پھر رہے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ میرے خیال میں سوات کی ٹریفک پولیس نے ایک سواری کے پیچھے دو دو رکشے رکھنے کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ اُن میں تو وہ رکشے خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جو پیچھے زہریلا کالا دھواں چھوڑ کر اچھے خاصے انسان کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ کیا ٹریفک پولیس کو وہ خاص رکشے نظر نہیں آتے یا کیا کوئی مجبوری یہاں بھی ہے؟
قارئین کرام! مانتا ہوں کہ انتظامی، معاشرتی اور سماجی مسائل صرف انتظامیہ حل نہیں کرسکتی بلکہ بہ حیثیت ایک ذمہ دار شہری کے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ مسائل کے حل میں تعاون کریں۔ لیکن انتظامیہ بتائے کہ اس میں بے چارے عوام کیا کریں؟ کیا مینگورہ نہ آئیں؟ بے چارے عوام کی گاڑیاں تو منٹوں کے حساب سے لفٹ میں اُٹھادی جاتی ہیں اور بغیر پانچ سو روپے دینے کے نیچے نہیں اُتاری جاتیں۔ اب تو یہی رہ گیا ہے کہ گاڑیوں کو مع عوام کے اٹھایا کریں، تاکہ عوام اور گاڑی اوپر ہی رہے اور نیچے ٹریفک آرام سے رواں دواں رہے۔
میرے خیال میں تو حل ایک ہی ہے کہ مینگورہ کے مین اور گنجان بازاروں کو غیر قانونی موٹر سائیکلوں اور رکشوں سے صاف کر دیں۔ معاملہ حل ہوجائے گا۔بے شک یہ حربہ آزمالیں۔ آزمائش شرط بھی ہے اور پیشکش بھی۔
مینگورہ کی بے ہنگم ٹریفک
