عصمت علی اخون
تعلیم ہی سے ترقی ممکن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جائے، تو وہاں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے وہاں کے عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ تعلیم کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ اس کے پھیلانے کے دعویدار بھی کمانے کے چکر میں ہیں اور حاصل کرنے والے بھی اس چکر میں رہتے ہیں کہ فارغ ہوتے ہی بڑی کرسی پر بیٹھ کر کمانے کی مشین بننا ہے۔ شعور وآگہی اور سیکھنے کے لیے کوئی نہیں سوچتا، نہ بہتری ہی کے لیے سوچنا ہمارا کام ہے۔ چاہے وہ نوکری ہو، یا کاروبار، کماتے ہی جانا ہے اور ڈھیر سارا پیسا جمع کرنا ہے۔ شائد اس وجہ سے تعلیم کی اہمیت ہمارے معاشرہ میں کم ہوتی جا رہی ہے۔
قارئین، تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے گذشتہ روز ایک استاد کے ساتھ بیٹھک ہوئی، تاکہ اس کی اہمیت اور اس کے فروغ پر بات ہوسکے۔ استادِ محترم محمد اسماعیل ہائیر سیکنڈری سکول کے پرنسپل ہیں اور کافی عرصہ سے محکمہئ تعلیم کے ساتھ ایک معلم کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ ان سے پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں فرق کے حوالے سے پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ سکول کی اپنی حیثیت ہے، لیکن اس کی کارکردگی اس میں کام کرنے والوں کی بدولت نکھرتی ہے۔ معلم اگر چاہے کہ یہ قوم کے بچے کل اس قوم کی باگ ڈور سنبھالیں، تو وہ ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیں۔ انہیں کامیاب انسان بنانے میں بھرپور کوشش کریں۔ استاد کا کام صرف سبق پڑھانا نہیں۔ کیوں کہ اس کام کی تو وہ تنخواہ لیتا ہے۔ طلبہ کو اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور ملنے ملانے کے طور طریقوں سمیت عصرِ حاضر کے چیلنجوں سے مقابلے کا ہنر بھی سکھانا ہے۔ یہ اکیلے ایک استاد کا کام نہیں، بلکہ والدین کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو وقت دیں، اور سکول جاکر بھی پوچھیں کہ ان کا بچہ سکول جاتا ہے کہ نہیں، وہ پڑھائی میں کیسا ہے؟ بدقسمتی سے آج استاد اپنا کام بہتر طریقے سے کرتا ہے اور نہ والدین ہی اس طرف توجہ دیتے ہیں۔
اسماعیل صاحب کا کہنا تھا کہ آج کل تو بڑے بڑے نام والے سکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرانے کا رواج عام ہے۔ اگر کوئی پوچھے، تو فخر سے بتایا جاسکے کہ میرا بیٹا فلاں سکول میں پڑھتا ہے۔
اسماعیل صاحب کے بقول، بچوں پر توجہ دینا پڑتی ہے۔ ہم بھی سرکاری سکولوں سے پڑھ کر آئے ہیں۔ مَیں آج الحمدللہ 19 گریڈ افسر ہوں۔ سرکاری اور شخصی سکول مسئلہ نہیں، مسئلہ پڑھنے پڑھانے کا ہے۔ اب ہمارے سکول ہی کو لے لیا جائے، یہاں ہمارا ٹیم ورک ہے۔ مہینے میں بچوں سے ٹیسٹ لینا، ہر مضمون میں پھر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے تقریبِ تقسیمِ انعامات کا اہتمام کرنا، اگر کوئی طالب علم سکول نہ آئے، تو اس کے پیچھے اس کے گھر جانا اور معلوم کرنا کہ وہ کیوں نہیں آیا، اور جو طلبہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیتے، ان کو بٹھانا اور ان کی کمزوریاں دور کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ پر بھی نظر رکھنا کہ ان کی پڑھائی کا انداز کیسا ہے؟ آیا بچے اس سے سیکھ سکتے ہیں، یا ان کو سمجھنے میں مشکلات ہیں۔ تو ہمارے سکول کا طالب علم کیوں نہیں پڑھے گا! یہی وجہ ہے کہ یہاں طلبہ کی تعداد 1070 تک پہنچ چکی ہے۔ اب بھی مزید طلبہ داخلہ لینے کی کوشش میں ہیں، اور زیادہ تر شخصی سکولوں سے آتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح استاد ذمہ دار ہے، بچوں کی بہتر پڑھائی کے حوالہ سے، تو اسی طرح والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت دیا کریں۔ گھر میں انہیں بٹھایا کریں اور ان سے پوچھیں کہ اس نے سکول میں کیا پڑھا؟ کوئی ہوم ورک ہے کہ نہیں؟ اور نماز پابندی سے پڑھا کہ نہیں؟ تب کہیں جا کے ہم بری الذمہ ہوں گے۔
انہو ں نے کہا کہ اگر ڈی ای او دلچسپی لیں اور سکولز پر فوکس کریں، تو بھی سرکاری سکولز کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے۔ اس میں حکومت کے بھی تعاؤن کی ضرورت ہوگی۔ ایک ڈی ای او کو کچھ عرصہ اس پوسٹ پر چھوڑا جائے، تو وہ بھی کوشش کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے جب وہ کام شروع کرتا ہے، تو اس کا وہاں سے تبادلہ ہوکر اس کا کام ادھورا رہ جاتا ہے۔ دورِ جدید کا تقاضا ہے کہ تعلیم کو عام کیا جائے۔ کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس میں ایک استاد پر بوجھ ڈالنے سے تعلیم عام نہیں ہوگی۔ معاشرہ کے ہر فرد کو استاد کا ساتھ دینا ہوگا، تاکہ تعلیم عام ہو اور دورِ جدید کے چیلنجوں کے لیے نسل نو کو تیار کیا جائے۔
قارئین کرام،آپ بھی اس کارِ خیر میں حصہ لیں اور خوشحال و تعلیم یافتہ پاکستان کا خواب پورا کرنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔