روخان یوسفزئی

افغانستان میں سرد جنگ جاری تھی جب اس خطہ کی اہمیت کے پیش نظر 1985ء میں ایک امریکی ملٹی ادارے (MLS) کے نام سے وائس آف امریکہ کے تعاون سے پشتو سافٹ وئیر تخلیق کی گئی۔ اس کے بعد کام ہوتا رہا اور بعد میں نور محمد لیوال نامی ایک نوجوان نے 1992-94ء میں ورڈ پرفیکٹ میں پشتو ڈھال کر اس شعبہ میں پشتو زبان و ادب کے شعبہ میں انقلاب برپا کر دیا۔ انہوں نے اپنی کوشش جاری رکھیں اور 1994-95ء میں پشتو ونڈو کی بنیاد رکھی۔ یہ سلسلہ مائیکروسافٹ کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ اس طرح پشتو معیاری رسم الخط نے آئی ٹی میں قدم رکھا اور پھر ای میل، چیٹنگ، ویب سائٹس سب کچھ پشتو میں دستیاب ہوا۔ اس سے پشتو طباعت و اشاعت میں نہایت تیزی سے ترقی ہوئی اور رسائل، جرائد و کتب اس ٹیکنالوجی سے کام لینے لگے اور دھڑا دھڑ چیزیں شائع ہوئیں۔ بی بی سی (برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) جیسے معروف بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے بھی پشتو میں اپنی علیحدہ ویب سائٹ کھولی۔ کمپیوٹر کے ذریعہ پشتو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی آگے حرکت کی اور ڈیجیٹل ساؤنڈ ریکارڈنگ سے لے کر پشتو ڈبنگ تک ہر چیز پر دسترس حاصل کی۔ پشتو سافٹ وئیر کی دنیا میں آج اس مقام پر ہے کہ آپ اسے کسی بھی سافٹ وئیر میں پیش کر سکتے ہیں کیوں کہ اب اس کے معیار مقرر کر دیے گئے ہیں اور اس کے پاس وہ بنیاد موجود ہے جو اسے آئی ٹی کی دنیا میں مزید آگے لے جانے کا سبب بن سکتی ہے یہاں تک کہ اب گوگل نے پشتو سے انگریزی اور انگریزی سے پشتو ترجمہ بھی اپنی فیچرز میں شامل کردیا ہے۔ علاوہ ازیں پشتو شعراء خوشحال خان خٹک، رحمان بابا، غنی خان، قلندرمومند،اجمل خٹک اور امیر حمزہ خان شنواری سمیت دیگرشعراء وادباء کا کلام بھی اس وقت انفرادی طور پر مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے لیکن سب سے زیادہ کام پشتو کلچر، تاریخ اور خبروں پر ہوا ہے۔ چونکہ دنیا کو ان چیزوں کی ضرورت تھی اور مارکیٹ میں ان کا رواج تھا اس لیے یہ چیزیں پشتو زبان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ اس وقت پشتو کی سینکڑوں ویب سائٹس موجود ہیں جو بڑے بڑے خبر رساں اور اطلاعاتی اداروں کے توسط سے چل رہی ہیں۔ مثلاً ڈوچے ویلے، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو آزادی، ڈیوہ ریڈیو،ریڈیوتہران، مشال اور ھیواد وغیرہ وغیرہ کے علاوہ بے شمار پشتو ایف ایم ریڈیوز بھی اپنی نشریات پیش کررہے ہیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے ہی پشتو زبان میں جدید ترین آڈیو ویڈیو ایڈیٹنگ کا کام ہو رہا ہے۔ اس وقت ہجے درست کرنے یعنی ’’Spelling Check‘‘ کے مسئلے پر کام ہو رہا ہے۔ فی الوقت آواز کی پہچان یعنی ’’Voice Recognition‘‘ اور ’’سیکنر‘‘ پر زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔ ہاں البتہ حال ہی میں پشتو سے انگریزی اور انگریزی سے پشتو زبان میں ڈکشنری کے پراجیکٹ کا آغاز ہوا ہے اور یہ پراجیکٹ بھی نوجوان افغان کمپیوٹر سائنٹسٹ نورمحمد لیوال ہی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ ان کے بقول ’’پوری دنیا میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے پشتو میں کام ہو رہا ہے، افغانستان، پاکستان، ایران، امریکہ، جرمنی، ہندوستان، یورپ ہر جگہ اس حوالے سے انفرادی جدوجہد جاری ہے اور ہر کوئی اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ان کوششوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئی ٹی کلچر میں پشتو زبان و ادب پورے آب و تاب کے ساتھ ترقی کی منزلیں سر کریں گے۔ اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں تحقیق کے میدان میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو رہا ہے یعنی کوئی ایسی منظم کوشش جس سے زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکیں بلکہ اکثریتی پختون آبادی کی تو رسائی بھی کمپیوٹر تک نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ یہ جانتے تک نہیں کہ پشتو زبان میں کتنا کام کیا جا چکا ہے۔ اپنے گزشتہ دور گورنری میں سابق گورنر خیبرپختونخوا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید افتخار حسین شاہ نے پشتو اکیڈمی پشاور میں ایک لینگویج لیبارٹری قائم کی۔ اس لیبارٹری کے قیام کا مقصد پشتو زبان سے نابلد افراد کو پشتو زبان سکھانا تھا اور یہ سارا کام کمپیوٹر کے ذریعے سرانجام دینا تھا۔ اس سلسلے میں ایک علیٰحدہ ویب سائٹ بھی تیار کی گئی۔ اس سارے عمل کا مقصد افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر تجارت کے شعبہ میں آگے جانے کے لیے کاروباری نقطہ نظر سے پشتو کی ترویج تھی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس لیبارٹری نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا۔ پوچھا گیا تو جواب ملا کہ چوں کہ یونیورسٹی کے پاس کمپیوٹر کے ماہر رکھنے کے لیے پیسے نہیں ہیں اس لیے یہ لیبارٹری ویران ہے۔ سابق گورنر نے تو جتنا کرنا تھا کر دیا باقی کام تو صوبائی حکومت، یونیورسٹی اور محکمہ تعلیم کا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کو چلانے لگتے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ سرکاری امداد کے بل بوتے پر یہاں ادارے جس رفتار سے چلتے ہیں اور جو کارکردگی دکھاتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت یہ دنیا ایک مواصلاتی گاؤں بن چکی ہے اور دیہات کے اپنے بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں لیکن اس سارے سلسلے میں اگر کہیں چوٹ پڑی ہے تو وہ تخلیقی ادب پر پڑی ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں شعر و ادب ہتھیلی پر ہیں وہاں تخلیق کے چشمے بھی ابل گئے ہیں۔ اب ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں اور بہترین ادب تخلیق ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ادب تک رسائی بھی آسان ہوچکی ہے لیکن تحقیق کا وہ کام نہیں ہو رہا ہے جیسا کہ کبھی ہوا کرتا تھا۔ اور صرف پشتو کا نہیں دیگر زبانوں کے ادب کا بھی یہی حال ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ یہ اب ادیبوں کو سوچنا ہے، شعراء کو سوچنا ہے، پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں اور پختون قوم کو سوچنا ہے۔