سلیمان سواتی
سوات جو ماضی میں تقریبا 3 سال انتہا پسندی کے زیر اثر رہا جس سے سوات کی مجموعی معیشت کو 80 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور پھر کچھ رہی سہی کثر 2010 سیلاب نے پورے کردی جس سے غربت اوربے روزگاری انتہا کو پہنچ گیئ، اب جب کچھ حالات بہتر ہونے کے طرف جارہے تھے تو موجودہ حکومت نے عوام پر مہنگائی کے ایسے بم گرانہ شروع کر دئیے جس سے جگہ جگہ مثلا فٹ پات،راستوں،اٹھتے بیٹتھے اور چھلتے پھرتے لوگوں کے زبان سے مہنگائی اور آنے والے غربت اور فاقے پڑھنے اور گھروں کے چولھےٹھنڈے ہونے پر تبصرے سننے کو ملیں گے ۔سوات عوام کی بیٹھک میں مہنگائی کا رونا رویا جارہا ہےمہنگائی سے غریب عوام کے گھروں میں فاقے پڑھنا شروع ہوگئے ہیں ۔جن لوگوں کا دن بھرکا گزارہ 500 روپے پر ہوتا تھا اب وہ مجبورا قرض لینے پر مجبور ہے ۔ لوگوں کی چہروں پر خوشیوں کے بجائے غم اور پریشانی صاف صاف نظر آتی ہے ۔ روز مرہ اشیا خوردونوش،دوائیاں ،پیٹرول،سبزیاں روز بروز مہنگی ہونے سے وہ دن دور نہیں جہاں لوگ خود کشیاں کرتے نظر آینگے عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ذہنی طور پر مفلوج اور مریض بن رہی ہے۔ معاشی بوجھ بڑھنے کی وجہ سے عوام کا جینا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے، عوام کے چولھے ٹھنڈے ہو رہے ہیں، حکمرانوں کے نعرے اور وعدے خیالی پلاؤ کے سوا کچھ نہیں۔ عوام کی بڑھتی ہوئی پریشانیاں خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہیں ذمہ دار افراد کی عوام کے بنیادی حقوق سے چشم پوشی نفرت کی آگ بھڑکانے کے مترادف ہے، عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت قومی یکجہتی کے خلاف گھناؤنی سازش ہے حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ورنہ حالات گھمبیر صورت حال سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ شاید پھر عوام کا غصہ اور احتجاج قابو سے باہر ہوجائے۔ مہنگائی کے اضافہ سے نوجوانوں،بوڑھوں،بچوں،عورتوں کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جن کے اضطراب سے عوام کی گھریلو زندگیاں متاثر ہورہی ہیں۔ ملک میں بے روز گاری ہے، گھر میں بنیادی ضروریات حیات کی اشیاء ناپید ہیں، عوام عجیب طرح کی غربت کی چکی میں پس رہی ہے اور کچھ لوگ خود کشیوں کے لیے تانا بانا بن رہے ہیں۔ روزانہ ہزاروں لوگ بے روز گار ہو رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری ملک و قوم کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے،نوجوان برے راستوں کو اپنا کر زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا شروع کردیں گے بلکہ بہت سی خرابیا ں پیدا ہو چکی ہیں۔ ذمہ دار افراد نے فورا توجہ نہ کی تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی جائے گا۔ سیاستدانوں کی نا اتفاقی بھی عوام کے مسائل حل ہونے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہے، عوام کا کوئی پر سان حال نہیں۔ شاید سیاستدان عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں اگر سنجیدہ ہوتے تو عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا بھی کوئی بل پاس ہوتا۔ اگر یہی صورت حال رہی تو عوام تنگ آکر اپنے حقوق کے حصول کے لیے خطرناک فیصلہ پر مجبور ہو سکتے ہیں جو ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے سود مند نہیں ہوگا۔عوام کا احتجاج اور غصہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے یہ احتجاج خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے مگر حکومت نے مہنگائی کے حوالہ سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی، عوام کے بنیادی حقوق کے استحصال سے ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے محبین وطن اس پر خاموش رہیں زیب نہیں دیتا۔آخر میں ایک شعر عرض ہے کہ
مہنگائی میں ہر اک شے کے دام ہوئے ہیں دونے
مجبوری میں بکے جوانی دو کوڑی کے مول