فضل مولا زاہد
پڑوسی پِنڈ دنگرام سے گزرتے ہوئے خوش گوار حیرت ہوتی ہے، جب دیکھتے ہیں کہ حضرات کے علاوہ کئی باوزن خواتین بھی بڑے اعتماد کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے روئے زمین پر اپنا جسمانی بوجھ ہلکا کرنے میں کوشاں ہیں۔ قبل اس کے کہ خواتین کے اِس مارچ بارے بات کرنے کے چسکے میں پکے سے کچے میں اُتر جائیں اور کوئی حادثہ رونُما ہو جائے، پیار کا، یا کار کا۔ گاڑی کا انجن ٹمپریچر اب نارمل ہو چکا ہے۔ خوابیدہ کیفیات پر بیداری کی کیفیات کا غلبہ چھاگیا ہے۔ سو ہمیں کسی مارچ واچ کی طرف دھیان دینے کی بجائے گاڑی کی رفتار کی طرف دھیان دینا چاہیے، جس کا میٹر بیس اور تیس کے ہندسے کے بیچ ٹال مٹول کر رہا ہے۔ مینگورہ شہر سے جی ٹی روڈ پر ”مخ پہ قبلہ“ چلتے ہیں۔ ایک عرصہ سے اِس شہر کا سحر ٹوٹتا جا رہا ہے۔ دن بھر موٹر سائیکلوں، رکشوں، چینگ چیوں اور این سی پی کاروں کے بحرِ بیکراں میں اُن کے دُموں سے دُھواں نکلتا نہیں بلکہ بہتا ہے، چاہے یہ چلیں یا نہ چلیں۔ نتیجتاً پھیلی ہوئی آلودگی پر رات ڈھلے کُہر پڑتی ہے، تو اُس کی تہہ سطحِ زمین پر محفوظ ہوتی ہے جو سویرے سویرے ڈنکے کی چوٹ پر نظر آتی ہے۔ اس آلودگی نے اس شہر کو بہت جلد کوڑادان نہ بنایا، تو پھر کہنا۔ سوات بیوٹی فی کیشن کا ڈھکوسلا نعرہ اور اربوں روپے کا جو منصوبہ تھا، وہ تو سیدو شریف کی ایک دیوار پر چونا لگانے میں اور بائی پاس روڈ کے اوپر کالا سُرمائی رنگ پھینکنے میں صرف ہو گیا، اور تصویری کارروائی کے بعد ”اللہ اللہ خیر صلا“ تو ہو گیا،لیکن وہ پیسا اتنی آسانی کے ساتھ ہضم کیسے ہوگا؟ حضور! فائل پر فائل تیار پڑی ہے کرپشن کی اُن لازوال داستانوں کی۔ ہم بھی دیکھیں گے کہ کرپٹ مافیاز کو پاکستان میں رہنے کو جگہ نہیں ملے گی، یہ لوگ اپنی تمام پراپرٹیز چھوڑ کر یہاں سے زندہ بھاگ جائیں گے، اِن کو سر چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی، ان شاء اللہ العزیز!
زندہ بھاگ جانے میں عافیت ہم بھی سمجھتے ہیں، وطن سے نہیں اِس شہر سے تیزی سے نکلتے ہیں، تاہم رہ رہ کر مینگورہ کے اُس مین بازار کے عروج کازمانہ یاد کرکے کُڑھتے ہیں۔ اپنے دیسی ہوم میڈ ریاستی دَورکے دوران میں اور بعد میں بھی کافی وقت تک جہاں، ڈالرز اورپاؤنڈزکی کرنسی زیادہ اور اپنا پاکستانی ”روپا“ برائے نام چلتا، بہترین کوالٹی کی امپورٹیڈ اشیا مناسب داموں ملتیں، ملکی و غیرملکی سیاح اور تعلیمی اداروں کے جوق در جوق طلبہ و طالبات آتے، بین القوامی طائفوں کا اِس بازار میں جھمگٹا دکھائی دیتا۔ ہم لوگ بڑی بے باکی سے بے شلوار اور بے بنیان گوریوں کے ساتھ روٹین کا گشت بھی کرتے رہتے اور پیار ویارکی ہٹی کے در بھی وا کیے رکھے ہوتے۔
”گورے میڈ پاکستان“ کا جنگجویانہ خونی اور مہیب سایہ جب یہاں پر پڑا۔ صوفی محمد اور فضل اللہ جیسے لوگوں کو ریاستی مامتا کی پیاری گود سمیت توپ و تفنگ اور دیگرہتھیار وں کے ساتھ بد امنی پیدا کرنے کے اَن گنت اوزار عنایت ہوئے۔ ”لائسنس ٹو کِل“ کا اختیار ملا اور ہر قسم کے سیاحوں پر سوات آنے کے دروازے بند کیے گئے، تو اس کے نتیجے میں مین بازار، وہ والا بازار نہیں رہا،بلکہ ورلڈ کلاس پوشاک کے کباڑ کا شو کیس بن گیا ہے۔ جمعہ مبارک کے دن اس کباڑ پر حملہ زَن عوام کے رش کا احوال دیدنی ہوتا ہے۔ شُکر ہے کچھ تو سستا ہے اِس بے حال و ”بے پُرسان“ مملکتِ مولا جٹ میں۔ وقت کے ساتھ یہ بازارمزید بے وقعت ہوکر امورِ خانہ داری کے دس نمبری دیسی سامان کا، کاریڈور بھی بنا۔ اب یہاں کاٹھ کباڑ اور کباب کی کڑاہیوں کے علاوہ کاشت کاری کے اوزار، از قسم کُھرپہ کُدال اور کسّی کُلہاڑے وغیرہ کا دھندا بھی ہوتا ہے۔لکھ دیا جاتا ہے تاکہ سند رہے کہ اِن بازار وں میں دُنیا ئے فانی سے کب کے فانی ہوئے حکما کے جگر گوشے، پوتے، نواسے ”معجون ومجلوقین“ کو فٹ پاتھ پر رکھے ببانگِ دہل اُس کی نیلامی میں مصروف ہوتے ہیں، اور اِن نسخہ جات کے بیک ڈورکارناموں کی کہانیوں کو آنے جانے والوں کے سامنے اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ سائیں معاف فرمائے۔ ہر سننے والے کا من چاہے کہ دُنیا و ما فیہا کے جُملہ غم پسِ پُشت ڈال کر ایک آدھ ماشہ معجون کاحلوہ کھا کر فوری طور پر”ہوم سویٹ ہوم“ کی طرف اُڑان بھریں اور گھر کے ‘”میر من“ کے معاونِ خاص بن جائیں۔
ٹی بی، دمہ، شوگر،جوڑوں اور کمر کادرد، کینسر، کڈنی سٹون اور ایڈز تک کے تمام لاعلاج مریضوں کو خبر ہو کہ ان کی بیماریوں کا شافی علاج ایک ہلکی چٹکی دوا سے اور ایک ہی ہچکی میں یہاں ”برسرِ فُٹ پاتھ“ ممکن ہے۔ کوئی حکیم میت میں جان ڈلوانے کا دعویٰ کرے، تو بعیدنہیں کہ لوگ اپنے پیاروں کی میتیں اُٹھا کر اس کے آس پاس ڈیرے ڈال دیں۔
جگت باز نجومیوں کے دانہ پانی کا بھی یہاں خوب سکوپ ہے۔ بس کسی کھلی جگہ میں اپنے اوزار پھیلائے، ہجوم کو دائرے کی شکل میں بیٹھنے کی ترغیب دے،”ہینڈز ناٹ فری سپیکر“ پرمجمع کوآگ بگولا خطاب کرے، اژد ھے کوکٹورے سے نکالنے کے لیے ہاتھ آگے پیچھے کرے، پھر جو بھی فروخت کرنا چاہے، کرے۔ عطر، کاجل اور سُرخی پاوڈر فروخت کرنے والوں کا ایک مقبولِ عام گانا سنیں۔اِس کے فوری بعد اپنی راہ لیتے ہیں۔
سترگے ورلہ توری کہ، عطر پی ورپوری کہ
زلفی ئے سمسوری کہ،شونڈی ورلہ جوڑی کہ
چی ناوے ترینہ جوڑہ کے نو وَر ورپسی پوری کہ
اِس گانے کے بقیہ اشعار قابلِ اشاعت نہیں، سو وہ سیلف سنسر کی نذرکرتے ہیں۔ خدا ہی حافظ ہوتیرا اے روبہ زوال مین بازار!
(جاری ہے)