روخان یوسفزئی
بھرے حجرے میں دونوں فریقین آمنے سامنے بیٹھے تھے مشران (بزرگوں) نے اپنی بات ختم کردی اور قاتل کے باپ ملک جابرخان سے کہا کہ آپ کو تورگل دہقان سے معافی مانگنی پڑے گی۔ ملک جابر خان اپنی جگہ سے اٹھے اور جھکی آنکھوں اور بھاری قدموں سے تورگل دہقان کی جانب روانہ ہوئے، تورگل دہقان کی آنکھوں میں خون اتر آیا، اسے اپنے اکلوتے بے گناہ و بے خطا جوانسال بیٹے کی خون آلود لاش یاد آئی، اس کی شعلہ بار آنکھیں ملک جابرخان کے چہرے پر مرکوز تھیں کہ ملک صاحب نے بڑی ندامت کے ساتھ اپنی آنکھیں نیچے کرلیں اور جب اپنے سر پر رکھی ہوئی شملہ دار پگڑی کو دونوں ہاتھوں سے اتارکر وہ تورگل کے قدموں میں رکھنے کی غرض سے جھک رہے تھے کہ تورگل دہقان فوراً آگے بڑھے اور جابرخان کے دونوں ہاتھ پکڑکر اشک بار آنکھوں سے اٹکتی ہوئی آواز میں بولے نا ملک صاحب نا! آپ نے مجھے اتنی بڑی عزت بخشی، میں نے خدا کی رضا کے لیے آپ کے بیٹے کو معاف کر دیا۔ یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جس کی بے شمارمثالیں کل بھی موجود تھیں اور آج بھی پختون معاشرے میں اس طرح کے بے شمار واقعات اور مثالیں پائی جاتی ہیں۔ دستار یا پگڑی محض پانچ، آٹھ گز کا کپڑا نہیں بلکہ اس کے ساتھ بہت بڑی عزت، حیا، شرم اور وقار وابستہ ہے اور اس سے بڑی بات اورکیا ہو سکتی ہے جب ایک شخص اپنی اس عزت، وقار اور حیا کو دوسرے کے قدموں میں رکھ دے۔ یہی وجہ ہے کہ دستار، پگڑی، عمامہ، لونگئی ہمیشہ عزت، احترام، حیا، شرم اور وقار کی بہت بڑی علامت رہی ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں اگرکوئی مرد یا عورت ایسی ویسی کوئی گری ہوئی حرکت کرے جس کے باعث اس کے سارے خاندان کی عزت اورآبروکو داغ لگے تو اس مرد اور عورت کے بارے میں حجروں اورگھروں میں ہر جگہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ اس فلاں نے تو ایک ایسی غلط اور ناروا حرکت کی ہے کہ اپنے باپ دادا کی پگڑی اچھال دی ہے، اپنے گاؤں اور محلے کی اونچی پگڑی اتار دی ہے۔ اسی طرح اگرکوئی غیرت، بہادری اور ننگ وناموس کا کوئی کارنامہ سرانجام دے تو بھی اس میں پھر لوگ جابجا اس بات کا ذکرکرتے ہیں کہ اس نے تو اپنے سارے خاندان، گاؤں، محلے کی پگڑی کی لاج رکھی ہے۔ دستارکو پشتو زبان میں پٹکے، سرائیکی اور ہندکو میں پٹکا کہتے ہیں جو غالباً ہندی کے لفظ پٹ بمعنی نقاب سے نکلاہے یا ہو سکتا ہے کہ یہ پشتو زبان کے اس جملے سے نکلا ہوکہ ’’پٹ کا‘‘ یعنی چھپادو یاڈھانپ دو یعنی سرکو ڈھانپ دو۔ بہرکیف اسے ہم ایک قسم سے مردکے سرکا نقاب بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے کئی دیہی اور خصوصاً قبائلی علاقوں میں دستار، پگڑی کو لباس کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا کی ہر قوم کے لباس کا زیادہ تر تعلق ان کے اپنے موسمی اور جغرافیائی حالات سے مشروط ہوتا ہے۔ چونکہ دستار بھی آدمی کے سرکا لباس ہے بالخصوص سردترین یاگرم ترین علاقوں میں سر پر دستار، پگڑی اور جدید شکل ٹوپی کا رکھنا تو ناگزیر ہوتا ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اگر اس زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو ابتدا سے آج تک انسان کی تمام ایجادات، اختراعات اور انکشافات اس کی مادی اور روحانی ضرورت کے تحت معرض وجود میں آئے ہیں جو رفتہ رفتہ سماجی، تہذیبی اور مذہبی اقدار و روایات میں بدل گئے ہیں یعنی بعض چیزوں کے مسلسل استعمال اور ضرورت نے بعد میں مستقل رسم و رواج اور مذہبی شعارکی شکل اختیار کر ڈالی۔ اس ضمن میں اگر ہم دستار، پگڑی کی اپنی سماجی، زرعی، موسمی، مذہبی اور ثقافتی ضرورت اور رواج کے بارے میں انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو لامحالہ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دستار یا پگڑی کا رواج ان ممالک اور علاقوں میں رہا جہاں کا زیادہ تر خطہ زمین ریگستانوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے، جہاں ہر وقت مٹی اور دھول اڑنے کا اندیشہ ہو اور اونچے اونچے پہاڑوں پرآباد جنگلوں سے اپنے لئے آگ جلانے کے لئے لکڑیاں اور جانوروں کے لیے گھاس وغیرہ کی بھاری بھاری گٹھلیاں سروں پر رکھ کرلاتے ہیں جیساکہ آج بھی ہمارے ملک کے اکثر و بیشتر علاقوں میں بسنے والے، کھیتی باڑی کرنے والے اور سڑکوں پر مزدوری کرنے والے ریلوے سٹیشنوں پر بطور قلی بوجھ اٹھانے والے سبھی لوگ پگڑی کا استعمال اس ضرورت کے تحت کرتے ہیں تاکہ اس وجہ سے طوفان اور تیز ہوا میں اڑتی ہوئی مٹی اور تیز دھوپ سے اپنے سر، آنکھوں اورچہرے کو بچا کر رکھیں۔ دیہی اور قبائیلی علاقوں کے اکثر بزرگ اپنی پگڑی سے بٹوے کا کام بھی لیتے ہیں یعنی اس میں روپیہ پیسے بھی رکھتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات نسوار کی پونڈی یا ڈبیہ کو بھی اپنی پگڑی میں چھپا کررکھتے ہیں۔ اس طرح جب کھیتوں میں کام کاج کے دوران تھک کرآرام کرنے کی نیت سے کسی گھنے درخت کے سائے کے نیچے سوتے ہیں تو اپنی پگڑی سے تکیہ کا کام بھی لیتے ہیں۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں جب کوئی صاحب حیثیت قسم کے لوگ اپنے بچے کے ختنہ کا مذہبی رسم ادا کرتے ہیں تو اس بچے کو بھی بازار سے لائی ہوئی تیار ’’تیلادار‘‘ یا ریشم کی خوبصورت پگڑی یا لونگئی باندھی جاتی ہے۔ اس طرح مہندی کی رسم میں بھی اور شادی بیاہ کے موقع پردولہا کے سر اچھی خوبصورت پگڑی یا لونگئی باندھی جاتی ہے ۔ یہ ایک قسم کی حیائ، عزت اور وقار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ مردے کو بھی غسل دینے کے بعد جب کفن پہنایا جاتا ہے تو اس سے پہلے پگڑی آڑھی ترچھی کرکے متوفی کے جسم کے نیچے بچھا دی جاتی ہے تاکہ اسے پھر قبر میں اتارنے میں آسانی ہو۔ عرب ممالک کے علاوہ ایشیاء کے تقریباً تمام ممالک اور علاقوں کے لوگوں میں دستار باندھنے کا رواج رہا ہے اور دستار باندھنا ان کے مذہبی اور تہذیبی شعائر میں شامل ہے۔ اس میں مسلم اورغیرمسلم کا کوئی فرق نہیں البتہ دستار، پگڑی کی وضع قطع میں مختلف علاقوں، مذاہب، تہذیبوں اورمختلف موسمی حالات کی وجہ سے فرق پایا جاتا ہے۔ پختون، بلوچ، سندھ اور پنجاب کے دیہاتی اور قبائل، سکھ، ہندو، جاٹ اور عربوں کے دستاروں کے رنگ اور سائز میں بھی ہمیں واضع فرق نظرآتاہے۔ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے پشاورکے ایک سکھ نے ہمیں بتایا کہ پگڑی باندھنا ہمارے مذہبی شعائر میں شامل ہے، یہ ہماری الگ الگ پہچان ہے، ہمارے مذہبی کتاب گروگرنتھ میں بھی پگڑی باندھنے کی تاکید موجودہے چاہے پگڑی کا رنگ جو بھی ہو لیکن سر پر باندھنا ضروری ہے کیوں کہ ہمارے مذہب میں ننگے سر پِھرنا گناہ سمجھا جاتا ہے، اس لئے ہمارے چھوٹے بڑے سب پگڑی باندھتے ہیں۔ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح پختونوں میں بھی دستار (پٹکے) کو بہت قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو میں دستارکے بارے میں متعدد محاورے، امثال اور اشعار آج بھی موجودہیں۔ پشتو زبان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی زبان میں صاحب سیف وقلم، نابغہ روزگار شخصیت خوشحال خان خٹک نے قلعہ رتنھبور (ہندوستان) میں قیدکے دوران دستارکی فضیلت اور اہلیت پر ایک ایسی مکمل اورکارآمد کتاب دستارنامہ لکھی ہے جو میکاؤلی کی لکھی ہوئی کتاب ’’دی پرنس‘‘ سے کسی طور بھی کم اہمیت کی نہیں۔ خوشحال خان خٹک نے بھی اس کتاب میں دستارکو آدمی کی حیاء اور عزت کا نشان کہا ہے، بادشاہ کی تاج پوشی، امیر جماعت کی دستاربندی اور کسی علمی و دینی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے سر بھی دستاریں باندھی جاتی ہیں، اپنے خاندان میں کسی بڑے بزرگ کی وفات کے بعد بھی اس کے جانشین یا وارث کی بھی باقاعدہ دستاربندی کی جاتی ہے۔ خوشحال خان خٹک نے اپنی کتاب دستارنامہ میں جن لوگوں کو دستار کا اہل گردانا ہے اور جس کو قوم وملک کی سرداری یا امارت کا حق دیا ہے اس شخص میں بیس ہنر اور بیس خصائل کا پایا جانا ضروری ہے ،جس کو بھی امارت یا سرداری سونپی جانی چاہیے یا جس کی دستاربندی ہونی چاہیے اس شخص میں خودشناسی، علم ودانش، تحریر، شاعری، تیراندازی، تیراکی ، گھڑسواری، شکار، شجاعت، سخاوت، معاشرت، تربیت اولاد، نوکروں چاکروں کی تنظیم سازی، اسباب معیشت، زراعت، تجارت، تحقیق، نسب، علم موسیقی، شطرنج ، نقاشی اور مصوری کے ہنرکا ہونا نہایت ضروری قرار دیا ہے۔ اس طرح خصائل میں عزم، خاموشی، سچائی، شرم وحیاء ، خوش خلقی، مروت، عفووکرم، تمیز و شعور، عدل و انصاف، توکل، تربیت، انتظام مملکت، ہمت، حلم، غیرت وغیرہ جیسے خصائل بھی لازم ہیں۔ دستارکی عزت اور وقارکی سب سے زیادہ زندہ مثال آج بھی ہم آئے دن اخباروں میں دیکھتے ہیں اور پڑھتے ہیںکہ فلاں سیاسی لیڈر، ملک کے صدر، وزیراعظم یا کسی اور اہم سیاسی، مذہبی شخصیت، جس کا تعلق کسی دوسرے صوبے مثلاً پنجاب، سندھ یا بلوچستان سے ہوتا ہے، جب یہاں خیبرپختونخوا میں کسی سیاسی جلسے یا کسی اور سرکاری وغیرسرکاری دورے پرآتی ہے تو اسے سب سے پہلے یہاں کی روایتی پگڑی ، پٹکے بمعہ کلا پیش کی جاتی ہے۔ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان فنکاروں یا شاعروں اور ادیبوں کے اعزاز میں جو پروگرام یہاں منعقد کئے جاتے ہیں تو اس میں بھی عزت واحترام کے طور پر سب سے پہلے یہاں کی روایتی پگڑی باندھی جاتی ہے اور یہ اس مہمان فنکار، ادیب اور سیاسی لیڈر سے اس صوبے کے لوگوں کی عقیدت، محبت، عزت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے اور پگڑی کی شکل میں اس مہمان کو عزت دی جاتی ہے۔ امام نوریؒ سے نقل کیا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے دوعمامے تھے، عمامہ کا باندھنا سنت مستمرہ ہے، نبی اکرمﷺ سے عمامہ باندھنے کا حکم بھی نقل کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے کہ عمامہ باندھاکرو اس سے حلم میں بڑھ جاؤگے (فتح الباری)، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کسی نے پوچھا کیا عمامہ باندھنا سنت ہے تو انہوں نے فرمایاہاں سنت ہے (عینی)۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ عمامہ باندھا کرو عمامہ اسلام کا نشان ہے اور مسلمان اورکافر میں فرق کرنے والاہے(عینی)۔ اس باب میں مصنف نے پانچ حدیثیں ذکرفرمائی ہیں ۱۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ فتح مکہ میں جب شہر میں داخل ہوئے تو حضور اقدسﷺ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا، ابوبردہؓ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ہمیں ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک موٹی لنگی دکھائی اور یہ فرمایاکہ آنحضرت ﷺ کا وصال ان دوکپڑوں میں ہوا تھا۔ خو شحال خان خٹک فرماتے ہیں کہ معلوم ہوناچاہیے کہ سر پر دستار باندھنے کا مطلب نمود و نمائش نہیں، دستارآدمی کی حیاء اور عزت کا نشان ہے، مردکی حیاء تمام تر دستار میں ہے، جب کبھی کوئی بادشاہ یا امیر پہلے پہل تخت یا مسند امارت پر بیٹھتا ہے تو بادشاہ کی تاج پوشی اور امیرکی دستاربندی کی جاتی ہے، ان میں جو قابل اور لائق ہوتے ہیں ان کے لیے باعث زیب اور جو ناقابل ہوتے ہیں ان کے لیے موزں نہیں ہوتی، جو لوگ متفقہ طور پر دستار اس شخص کے سر پر رکھتے ہیں گویا وہ اس کی اطاعت قبول کرتے ہیں یو ں دستارکی عزت دونوں فریقوں پر لازم ہو جاتی ہے، یعنی وہ جو دستار پہناتے ہیں اور وہ جو دستار پہنتے ہیں اور وہ جو دستار بزرگی اپنے سر پر رکھتا ہے اور دوسرے کا جانشین بنتا ہے۔ اگر وہ قابل ثابت ہو تو اس کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے اگر نااہل ثابت ہو تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ غرض دستارکاکام کوئی سہل اور آسان نہیں، دستار بندی کی حرمت کا انحصار بادشاہوں پر ہے کیوںکہ دستار باندھنا انہی کا کام ہے۔ پس قابلیت کے اسباب ان میں موجود ہوتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو دستار باندھنا ان کیلئے باعث عار ہو جاتا ہے۔ قبل از اسلام دستار بندی کا دستور بادشاہوں نے وضع کیا۔ بادشاہوںکے علاوہ سر پر دستار اورکوئی نہ رکھتا تھا۔ صرف وہ لوگ دستار باندھتے جنہیں یہ بادشاہ کی طرف سے عطا کی جاتی اورکسی کی مجال نہ تھی کہ دستار باندھے۔ پگڑی کا شملہ بھی صرف وہ شخص رکھتا جو بہادر ہوتا اور شمشیرزنی میں نمایاں مقام کا مالک ہوتا تھا۔ یوں تو بے شمار لوگ گزرے ہیں ان کا نام تو تمثیلاً آگیا ۔ بنی امیہ میں یزید بھی گزرا ہے لیکن کیا وہ دستار فضیلت کا اہل تھا؟ جوکوئی بھی اوصاف حمیدہ کا مالک ہوا اور قابلیت اور استعداد رکھتا ہو دستارکا اہل وہی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دنیا پرست ہیں، نام کے مسلمان، عمل میں کافر، دنیا میں حکومت کی خواہش میں حیران و سرگردان، مصاحب و امرائ، ہندو، رافضی، فاسق و فاجر ہیں اگر وہ تخت نشین بھی ہوں تو انہیں کم بخت تصورکیا جائے، وہ دین اور دستارکے اہل مردوں کی اہلیت سے عاری ہیں۔ نوشیروان عادل آتش پرست تھا لیکن عدل گستری کی صفت میں کمال درجہ رکھتا تھا۔ دستار کے حوالے سے چند اردو اور پشتوکے اشعار پیش خدمت ہیں،
چہ دستار تڑی ہزار دی
د دستار سڑی پہ شمار دی
(دستار باندھنے والے تو ہزاروں ہیں لیکن دستارکے اہل انگلیوں پے گنے جا سکتے ہیں)
؎ د ریا خرقہ ئے خدائے مکڑہ پہ غاڑہ
رحمن کوگ دستار تڑلے قلندر دے
(رحمان کواللہ تعالیٰ ریا کے خرقے سے بچا کر رکھے کیوں کی وہ توکج دستار پہنے قلندر ہے)
؎ رات میخانے میں ایک پگڑی پڑی تھی رہن مے
ذوق پہ تیری ہی دستار فضیلت ہو تو ہو
؎ دا سرکوزی پختونہ عشقہ ولے
ستا د زلمو ہغہ پگڑئی سہ شوے
( اے پختون عشق یہ خم سری کیوں تیرے نوجوانوں کی دستاریں کہاں گئیں؟ )
؎ اب تو ہم گھرسے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزت سادات بھی دستارکے ساتھ
خندق میں جان بچ گئی خطرہ بھی ٹل گیا
لیکن سرحمیدہ سے دستارگر پڑی