تصدیق اقبال بابو
آج ہماہمی، افراتفری اور مادہ پرستی کا دور ہے۔ جہاں ہر شعبۂ زندگی میں نت نئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، وہاں بشری حوالے سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ انسان سہل پسند ہوتا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی (کمپیوٹر، انٹرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا) نے انسان کو اور بھی آرام پرست بنا دیا ہے۔ اس وسیع تناظر کوسمیٹتے سمیٹتے اگر ہم مطالعے اور خاص کر فکشن کے مطالعے اور پھر ناول کے مطالعے اور اس سے بھی ایک قدم آگے پشتو کے ناول کی طرف قدم بڑھائیں، تو ہمیں بہت مایوسی ہوگی کہ اس کا تناسب گٹھتے گٹھتے آٹے میں نمک کے برابر رہ گیا ہے۔ اوپر سے ہم گلہ بھی کرتے ہیں کہ پشتو ادب میں نظم کے مقابلے میں نثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ داد دینا ہوگی ایسے دُھن کے پکے چند مٹھی بھر سر پھرے لوگوں کو جنہوں نے اپنی ماں بولی (زبان) کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ انہی میں ایک ایم عنایت اللہ خان یاسر بھی ہیں۔
کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نواجن سے
ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے
میرے آج کے ممدوح تہی دست ہیں اور نہ بے نوا، لیکن ہاتھ ملانے سے ہاتھ کی خوشبو واقعی نہیں جاتی۔ آپ کا تعلق سوات کی تحصیل کبل کے ’’کالاکلے‘‘ نامی گاؤں سے ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ یوسف زئی قبیلے کی ’’خوشحال خیل‘‘ شاخ سے ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں باچا خان کی خدائی خدمت گار تنظیم کا حصہ بنے۔ عدم مساوات، طبقاتی کشمکش اور استحصالی نظام سے نالاں ہو کر گاؤں گاؤں، گلی گلی، محلے محلے جاکر باچا خان کا پیغام پہنچاتے رہے، لیکن جب نیشنل عوامی پارٹی، بھاشانی گروپ، بلوچ گروپ اور سرحد میں اے این پی اور پھر مزدور کسان جیسے گروپوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی، تو آپ جیسے مخلص اور کھرے کارکنوں کو صدمہ ضرور پہنچا، لیکن پھر بھی کام کرتے رہے۔
آپ کے تعلیمی کیرئیرکی بات کی جائے، تو شگئی سیدوشریف سے پرائمری،کبل سے میٹرک، جہانزیب کالج سے ایف اے اور بی اے کے بعد جامعۂ کراچی سے ایم اے (سیاسیات) اور پھر ایم ایس کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری لی، جب کہ مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلے گئے۔ جہاں ’’لنکنز اِن‘‘ سے بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے پریکٹس کے لیے امریکہ چلے گئے۔ وہاں ’’لافرم‘‘ میں قانونی کام کرتے رہے، لیکن اندر کی بے چینی نے آپ کو "Fed up”کر دیا اور آپ واپس پاکستان چلے آئے۔ یہاں ’’جونیئر اٹارنی‘‘ کی حیثیت سے کچھ کام ضرور کیا، لیکن طبیعت کی درویشی اور پیسے کی عدم ضرورت کے پیشِ نظر کام سے بے زار ہوگئے اور حیات آباد پشاور میں ’’سر قلعہ‘‘ کے نام سے اک شان دار کوٹھی بناکرمستقل رہنے لگ گئے۔ میری اور نایاب صاحب کی اُن سے وہیں ملاقات ہوئی۔ وہ بڑی نفیس، باوقار اور پر تاثر شخصیت کے مالک تھے۔ باتوں میں بھی ایسا رکھ رکھاؤ، رچاؤ اور بساؤ تھا کہ بقول غالب
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
میں نے اُن سے امریکہ اور برطانیہ کی طرزِ معاشرت کا پوچھا تو کہنے لگے: ’’برطانیہ میں پبلک سیکٹر مضبوط ہے جبکہ امریکہ میں پرائیویٹ سیکٹر۔ نیز برطانیہ میں جھوٹ نہ بولنا، وقت کی پابندی اور نظم و ضبط ہے جبکہ امریکہ میں زندگی تو مصروف ہے لیکن معاشرہ غیر منظم ہے۔
ادب کے حوالے سے پوچھنے پہ انہوں نے بتایا کہ ’’بچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا۔ اجمل خٹک کی ’’د غیرت چغہ‘‘ سے شروع ہونے والا سفر فیضؔ ، جالبؔ ، ساحرؔ اور فراز سے ہوتا ہوا ٹالسٹائی، گورکی، پوشکن، ملٹن کولرج، روسو، ہیگل، مارکس اور اینگلز تک جا پہنچتا ہے۔ اپنی تخلیق کے حوالے سے کہنے لگے کہ ’’میٹرک ہی سے شاعری شروع کر دی۔ پھر کئی افسانے اور ڈرامے لکھے۔ ’’زلندہ ارمانونہ‘‘ ناول شائع ہوچکا ہے جبکہ ایک عدد ناول اپنے آخری مراحل میں ہے۔‘‘ ’’زلندہ ارمانونہ‘‘ کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ ’’اس کا پلاٹ میرے ذہن میں تھا بس خدا کا نام لے کر لکھنا شروع کردیا اور ایک سال کے عرصے میں یہ پایۂ تکمیل تک پہنچا۔
615 صفحات کا یہ ضخیم ناول میری نظر سے بھی گزرا۔ اندھیرے کی علامت کالے ٹائٹل پہ اِک ٹمٹماتی شمع روشن ہے، جو گلوب نما دنیا کے علامتی نقشے کے اِک حصے پہ اپنی روشنی ڈال رہی ہے۔ اس ناول کی دستی کتابت عبدالرحیم روغانےؔ نے کی جبکہ کسی سے دیباچہ لکھوانے کی بجائے خود ہی مختصر تعارفی کلمات کے بعد ناول شروع کردیا۔ ایسے میں مجھے برناڈشاہ یاد آگئے، جنہوں نے اپنی کتاب کا دیباچہ خود ہی لکھتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’میں کسی سے اپنی تعریف کیوں کراؤں، میں اپنی تعریف خود کرسکتا ہوں۔‘‘
اب آتے ہیں اُن کے ناول کی طرف۔ اس ناول کا مرکزی خیال انسان، انسانیت اور انسان دوستی کے گرد گھومتا ہے۔ اس میں ایک ایسا پیغام ہے جو کسی بھی زبان، نسل اور فرقے سے بالاتر ہوکر انسانیت کا درس دیتا ہے۔ اس میں بین الاقوامی امن کی بات کی گئی ہے۔ ڈاکٹر روخان اس ناول کا مرکزی کردار ہے، جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اُسے انسان اور انسانیت سے پیار ہے۔ وہ گلی گلی، محلے محلے، یہاں تک کہ کچی آبادیوں اور جھونپڑیوں میں بھی جاکر مفت علاج کرتا ہے۔ شگفتہ نامی ایک رئیس زادی اُس پہ لٹو ہوجاتی ہے لیکن ناول ’’آنگن‘‘ کی ’’نجمہ‘‘ کی طرح اونچے خیالات رکھتی ہے اور ڈاکٹر روخان کو اُس کی سادگی کی بنا ٹھکرا دیتی ہے۔ البتہ ہیروئن کی ماں کا کردار مثبت ہے۔ اس ناول میں طبقاتی اونچ نیچ، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام پہ خوب بحث و مباحثہ کیا گیا ہے۔ مصنف نے رحیم گل کے ناول ’’جنت کی تلاش‘‘ کی طرح اپنا مافی الضمیر مختلف کرداروں کے ذریعے، تقاریر، مباحثوں اور مکالموں کے ذریعے خوب آشکارا کیا ہے۔ نیز ’’امراؤ جان ادا‘‘ ناول کے مصنف مرزا ہادی رسوا کی طرح ’’زلندہ ارمانونہ‘‘ کے مصنف نے بھی اپنی شاعری کو ناول میں سمویا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنے کرداروں کے طفیل مصنف نے اپنی روشن خیالی، ترقی پسندانہ خیالات اور بین الاقوامی امن کے پیغام کو اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اس میں ہر کلاس کی نفسیاتی کیفیات، سوچ کی نوعیت اور ذہنی رجحان کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے۔ ناول کے کم کردار، پلاٹ کی لاجواب بنت اور مرکزی خیال پہ مصنف کی خاص گرفت قابلِ داد ہی نہیں واجب الداد بھی ہے۔
ہم اتنے اچھے اور معیاری ناول پہ ایم عنایت اللہ خان یاسر کومبارک باد پیش کرتے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنا یہ سفر اسی طرح جاری رکھیں گے۔
ایم عنایت اللہ خان یاسر اور ان کا ناول ’’زلندہ ارمانونہ‘‘
