روح الامین نایابؔ
کسی بھی معاشرے اور خاص کر انسانی سماج میں ہر وقت صلح صفائی اور اصلاح کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ انسانی سماج میں ابتدا سے جب سے ذاتی ملکیت کا تصور جنم لے چکا ہے، لڑائی جھگڑوں، اختلافات و واقعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ بقولِ میکاولی ”انسان ذاتی طور پر فطرتی خود غرض واقع ہوا ہے، وہ اپنی غرض اور ذاتی مفاد کے لیے پوری دنیا کو آگ کے شعلوں میں جھونک سکتا ہے۔“ وہ اپنے مفادات پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتا۔
ایک سروے کے مطابق دنیا کی تمام لڑائیاں خواہ ذاتی ہوں، یا ملکی سطح پر ہوں، یا پھر عالمی سطح پر مفادات کی وجہ سے لڑی جاتی ہیں، بعد میں ان مفاداتی جنگ یا جھگڑوں کو حقوق، مذہبی و قومی رنگوں میں رنگاجاتا ہے۔ ورنہ یہ بات ایک اٹل حقیقت کی شکل میں پایہئ تکمیل کو پہنچ کر ثابت ہوچکی ہے کہ ہر جنگ اور لڑائی کے پیچھے معاشی اور جغرافیائی مفاد پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہاں ایک عجیب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیسویں صدی میں جتنی تہذیب و تمدن ترقی کرچکی ہے، تحقیق، تعلیم، شعور کی سطح بڑھ چکی ہے، جدید ٹیکنالوجی آسمانی بلندیوں کو چھو رہی ہے، اتنی ہی انسانی اخلاق، شرافت و انسانیت پستی اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوچکے ہیں۔ انسانی سماج کی لڑائیوں نے نہایت بھیانک شکل اختیار کرلی ہے۔ پورے انسانی معاشرہ پر دہشت و وحشت کی ایک خوفناک دبیز تہہ چھڑی ہوئی ہے۔ ہر انسان دوسرے سے ڈر رہا ہے۔ ہر جانب خوف کے سائے منڈلارہے ہیں، لیکن خوف و دہشت کے ان اندھیروں میں کبھی کبھی امن کی خوبصورت اور روشن کرنیں بھی پھوٹتی ہیں۔ بدی اور شیطانی قوتوں کے سامنے نیکی، امن اور شرافت کی فرشتہ نما قوتیں ڈٹ جاتی ہیں۔ وہی انسان جو ڈر اور خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے وہ امن، خوشحالی اور سکون کی نوید بھی لے کر آتا ہے۔ ایسی پُرامن، فرشتہ صفت قوتیں دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ان نیک مقاصد کے لیے اپنے ذاتی مفادات قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے، اس کے لیے اپنا قیمتی وقت دھان کرتے ہیں۔ انہیں امن و سکون لانے میں اور صلح صفائی برقرار رکھنے میں قلبی قرار اور سکون ملتا ہے۔ وہ کسی انسان سے ذاتی مفادات اور غرض کی اُمید نہیں رکھتے، بلکہ اللہ اور رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بندگانِ خدا میں صلح صفائی کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت نے مقامی سطح پر تھانوں میں جو ڈی آر سی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ تقریباً عرصہ تین سال سے وہ اچھی کارکردگی پیش کر رہی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ امریکہ اور یورپ کی طرز پر مقامی کمیونٹی کے لیے نچلے سطح پر ایک عدالتی نظام متعارف کرایا گیا ہے، جس میں پختونوں کے روایتی جرگہ کو بھی ایک اہم حصہ دیا گیا ہے، تاکہ افہام و تفہیم سے آپس کے جھگڑوں، جائیدادی تنازعوں کو جرگے کے ذریعے کچھ لے دے کر حل کیا جائے اور فریقین کے درمیان تلخی کو امن و صلح میں تبدیل کیا جائے۔ بلا شبہ یہ ایک اصلاحی اور اسلامی عمل ہے جس میں اگر ایک جانب فریقین کو خون خرابے سے بچایا جاتا ہے، تو دوسری طرف لمبی عدالتی کارروائیوں اور سلسلوں سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔
ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل (ڈی آر سی) جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ مقامی سطح پر ایک ایسے کونسل کا قیام عمل میں لانا مقصود ہے جو متنازعہ مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکے۔ اسی حوالہ سے منگلور تھانے کی ڈی آر سی کی کارکردگی قابلِ تحسین رہی ہے۔ یہ کونسل 2017ء سے مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ اس کے روزانہ اجلاس ہوتے ہیں۔ اکثر بہت دیر تک کارروائی جاری رہتی ہے جب تک کوئی مسئلہ منطقی انجام تک نہ پہنچے، کونسل کے اراکین سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے ڈی آر سی منگلور تھانہ کو پورے سوات میں اول پوزیشن سے نوازا گیا ہے۔ جناب ڈی پی او واحد محمود صاحب نے مینگورہ تھانہ میں ایک پپروقار تقریب میں منگلور کونسل کو ایک انعامی شیلڈ سے سرفراز کیا، جب کہ کونسل کے تمام اراکین کو اُن کی محنت اور خدمتِ خلق کے جذبے کے عوض تعریفی اسناد عطا کیے۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور کونسل کے تمام معزز اراکین مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مَیں اپنی طرف سے اور منگلور کے باشعور عوام کی طرف سے اُن کی اس اعلیٰ کارکردگی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ منگلور تھانے کے موجودہ انچارج ایس ایچ او جناب الطاف خان اور اُس کا عملہ بھی قابل ستائش ہے جنہوں نے ہر لمحہ اور ہر وقت کونسل کے ساتھ بھر پور تعاون کا مظاہرہ کیا اور مختلف مسائل کے حل کرانے میں ساتھ دیا ہے۔
قارئین کرام! منگلور تھانہ میں مذکورہ ڈی آر سی کی سرگرمیوں اور اجلاسوں کے لیے ایک خوبصورت دفتر اور ساتھ کونسل ہال بھی بنایا گیا ہے جو تمام سہولیات سے آراستہ ہے۔ ان کے اجلاسوں اور سرگرمیوں میں انتظامیہ کوئی مداخلت نہیں کرتی، سوائے تعاون کرنے کے۔ کونسل کے فیصلوں اور سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے علیحدہ ایک ماہر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر تمام کارروائی کا تحریری ریکارڈ محفوظ کرتا ہے۔ اُسی ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے منگلور تھانہ ڈی آر سی کو 2017ء سے لے کر اب تک کل 320کیس پیش ہوئے ہیں جن میں 272کیسوں میں راضی نامہ ہوچکا ہے اور فریقین میں باہمی افہام و تفہیم سے سمجھوتا ہوگیا ہے جس میں قتل کے کیس بھی شامل ہیں۔ باقی 27عدد کیس عدالت کو ریفر ہوچکے ہیں، 21عدد کیس فائل ہوچکے ہیں۔ یہ ایک ریکارڈ پرا گرس ہے جس کا سہرا کونسل کے اراکین کے سر ہے جو شبانہ روز محنت کرتے ہیں۔
کونسل کے اراکین کی کل تعداد تقریباً 19 ہے جس میں سنگوٹہ کے ملک فضل قادر خان (چیئرمین) اور منگلور کے ظاہر شاہ خان (وائس چیئرمین) ہیں۔ باقی 17اراکین میں حیدر خان، میاں سید واحد، شوکت علی، برکت علی، فضل واحد، سید محمد ایاز، روئیداد خان، عبدالوہاب، اختر علی، فضل حیات، شیر علی، انور علی، رحمت زیب، مساوت خان، حنیفہ گل، سعد اللہ خان اور اقلیتی ممبر شکیل صادق شامل ہیں۔
تمام اراکین کے لیے ایک شیڈول وضع کیا گیا ہے جو ہفتے میں نمبر وار کونسل میں حاضری دیتے ہیں جب کہ چیئرمین اور وائس چیئرمین ہر کی شرکت ہر اجلاس میں لازمی ہوتی ہے۔ ہفتہ اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ باقی پانچ دن باقاعدہ کونسل کا اجلاس ہوتا ہے اور پیش کردہ درخواستوں پر مشوروں سے عمل درآمد ہوتا رہتا ہے۔
مَیں منگلور تھانہ کو ڈی آر سی کونسل کی کارکردگی پر اس کے اراکین کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور اس امید کے ساتھ تحریر کا اختتام کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح اپنی کارکردگی کا معیار بر قرار رکھیں گے اور اپنے تھانے اور علاقے کا نام روشن کریں گے، ان شاء اللہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی آر سی منگلور
