ہر ملک اور خطے میں مسائل کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، بے روزگاری، غربت، بھوک اور افلاس، ناخواندگی، ناانصافی، استحصال اور جنسی تشدد وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن سے دُنیا کا ہر ملک نبردآزما ہے۔
آج سے تقریباً سات آٹھ سال پہلے دنیا میں بحث چھڑ گئی تھی کہ ترقی کی بجائے پائیدار ترقی پر توجہ مرکوز کرنا لازمی ہوگیا ہے۔ کیوں کہ ترقی کے نام پر ہم وسائل کا استعمال کرکے اس کو ختم تو کر رہے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں ماحولیاتی اور سماجی توازن برقرار رکھنے اور اس سلسلے میں وسائل کے دیرپا اور منصفانہ استعمال کی شدید قلت ہے۔ ہمیں اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے بھی سوچنا ہوگا۔ ترقی کے ایسے ذرائع، وسائل اور تکنیکی علم اور تجربے کو بروئے کار لانا ہوگا جن کی مدد سے ماحول، سماج اور معاش کے درمیان نازک رشتے کو دیرپا انداز میں قائم رکھا جاسکے۔
پائیدار ترقی کا بین الاقوامی معاہدہ اس سلسلے کی ایک اہم کھڑی ہے، جو اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے ستمبر 2015ء میں طے پایا تھا۔ پاکستان سمیت 193 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کا دورانیہ پندرہ سال یعنی 2030ء تک ہے جو کہ 17 عالمی اہداف پر مشتمل ہے، جس میں غربت کا خاتمہ، بھوک سے ہونے والی اموات کی روک تھام، اچھی اور صحت مند زندگیوں کا قیام، معیاری تعلیم کی فراہمی، صنفی تفریق کا خاتمہ، صاف پانی اور صفائی کا انتظام، باکفایت، جدید اور قابل اعتبار توانائی تک رسائی، باعزت روزگار اور معاشی بڑھوتری، دیرپا صنعتی عمل کا فروغ، عدم مساوات میں کمی، محفوظ آبادیوں کا قیام، محتاط تصرف اور پیداوار پر توجہ دہی، موسمیاتی تغیرات سے نبرد آزمائی کے لیے عملی اقدامات، سمندری و آبی وسائل کا تحفظ، زمین پر بسنے والی حیاتیاتی تنوع کی حفاظت و ترقی، امن، انصاف اور مستحکم اداروں کا فروغ، اور تمام اہداف کے حصول کے لیے عالمی اشتراکِ عمل کو مؤثر بنانا شامل ہے۔
مذکورہ معاہدے کی رُو سے پاکستان ان اہداف کی تکمیل و حصول کے لیے عملی اقدامات کرنے کا پابند ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے پاکستان نے ملینیم ڈویلیپمنٹ اہداف (ایم ڈی جی) کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، اور عالمی دنیا کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان پندرہ سالوں میں تعلیم، صحت اور لڑکیوں یا عورتوں سے متعلقہ شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا کر اپنی عالمی درجہ بندی کو بہتر بنائے گا، لیکن بدقسمتی سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ریاستی اور حکومتی ترجیحات، اہداف کی مرکزیت، موزوں اور مؤثر منصوبہ سازی کا فقدان، مالی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ایم ڈی جی اہداف کے بارے میں عمومی لاعلمی جیسے محرکات اس ناکامی کے اسباب میں شامل ہیں۔
قومی اور صوبائی ترجیحات کا تعین، پالیسی، قانون سازی، ادارہ جاتی تشکیل اور عمل درآمد کا نظام، وسائل کی تقسیم کا عمل، اعداد و شمار اور نگرانی کا مؤثر نظام، نجی شعبہ، سول سوسائٹی اور حکومت کے درمیان مؤثر شراکت داری و رابطہ کاری اور مقامی حکومتوں کی مضبوطی اور مؤثر پذیری ایسے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے درست سمت میں پیش رفت کر رہا ہے یا نہیں۔
منصفانہ، بلاتفریق اور پائیدار سماجی ترقی کو یقینی بنانا پاکستانی ریاست، حکومت، اداروں اور معاشرے کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ جس معاشرے میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی، سماجی اور معاشی ترقی کا عمل عوامی مفادات کا ترجمان نہ ہو، وہاں حکمرانوں اور عوام میں فاصلے بڑھتے ہیں اور بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کے حوالے سے ہمارے ہاں عالمی معاہدوں، ریاستی پالیسیوں اور حکومتی قوانین کی ایک لمبی فہرست موجود ہے، مگر اصل مسئلہ عمل درآمد کا نہ ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے سماجی و معاشی ترقی کے منظر نامے پر ہماری ساکھ اور عالمی درجہ بندی کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پائیدار ترقی کے بین الاقوامی ایجنڈے پر عمل در آمد کے حوالے سے پاکستان کو متعدد مسائل در پیش ہیں۔ اس معاہدہ کے متعلق حکومتی اداروں اور مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول عوامی نمائندوں، وزیروں، مشیروں، افسران، میڈیا اور اہلِ دانش کی سطح پر معلومات اور شعور کی کمی، مقامی حکومتوں کی غیر فعالیت یا عدم موجودگی، قومی اور صوبائی پارلیمانی ٹاسک فورسز کا غیر مؤثر کردار، صنفی بنیادوں پر بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کا فقدان، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، حکومت، سول سوسائٹی اور نجی شعبوں میں مؤثر رابطہ کاری کی کمی، ادارہ جاتی سطح پر نگرانی کا کمزور نظام، انسانی ترقی بالخصوص کمزور طبقات کی محرومیاں، میڈیا، پارلیمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں میں ان اہداف کے بارے میں بحث و مباحثے کا نہ ہونا، سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی، ماہرینِ تعلیم، سماجی تنظیموں اور نوجوانوں کی عدم شمولیت اور احتساب، جواب دہی اور شفافیت کا کمزور نظام جیسے عوامل شامل ہیں۔
ہمارے ہاں عالمی مالیاتی ادارے جو حکومتوں اور غیرسرکاری اداروں کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے وسائل فراہم کرتے ہیں، وہ بھی اس ضمن میں کوئی مؤثر اور شفاف جواب دہی کا نظام قائم نہیں کرسکے ہیں۔
مذکورہ بالا مسائل کا حل اور پاکستان میں پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کا حصول تب ہی ممکن ہوسکے گا، جب ریاستی اور سیاسی ترجیحات میں ان کو فوقیت دی جائے گی۔ بصورتِ دیگر ان کا حشر بھی ماضی کے معاہدوں سے مختلف نہیں ہوگا۔
پائیدار ترقی کے اہداف اور ہماری مشکلات
