فضل محمود روخان
امتیاز احمد عابدؔ کے بارے میں چارسدہ سے اکرام اللہ گرانؔ، عابدؔ کی ”پرپرکی“ نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”پختون خوا اور خاص کر مردان کا نمائندہ غزل کے حوالے سے امتیاز احمد عابدؔ کا نام غزل گو شاعروں کی صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی غزل کا انداز، لہجہ، لفظوں کی ترکیب اور اس کا استعمال، خاص کر نئی نئی ترکیبوں کی موزونیت عابدؔ کی غزل کے اثر کو دور دور تک پھیلانے میں معاون ہے۔ عابدؔ خیالوں اور لفظوں سے یوں کھیلتا ہے کہ وہ ان دونوں کو بڑی بے ساختگی سے ایک لڑی میں پروتا ہے، جس سے غزل کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ وہ میرے خیال میں ”غزل کے تاج دار“ ہیں اور مردان میں غزل کے نمائندہ شاعر ہیں۔ مَیں تو اُن کو اپنے ہم عصروں میں جدید غزل کا اُستاد کہتا ہوں، اور اُنہیں سلام پیش کرتا ہوں۔“
اس طرح ڈاکٹر درویش خان یوسف زے، امتیاز عابدؔ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: ”امتیاز عابد منفرد انداز سے پشتو غزل کو ایک اونچے مقام پر لے گئے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ بہت خوبصورت انداز میں لکھتے ہیں۔ مَیں تو اُن سے بہت پیچھے ہوں، جب مَیں انہیں دیکھتا ہوں، تو حیران رہ جاتا ہوں۔“
عابدؔ لر و بر کے تمام دانشوروں کی توجہ چاہتے ہیں۔ صحیح معنوں میں ہماری داد کے مستحق ہیں کہ پشتو ادب کے بناؤ سنگھار میں ان کا ہاتھ ہے۔ سوات سے 17 مئی 2006ء کو رحیم شاہ رحیمؔ، عابدؔ کی غزل پر کچھ ان الفاظ میں تبصرہ کرچکے ہیں: ”پشتو کی سنجیدہ غزل لکھنے والوں میں امتیاز عابدؔ بھی ایک ہیں، جس پر غزل ہمیشہ فخر کرے گی۔“
قارئین، شاعری کرنا اور پھر اس فن کو مسلسل جاری رکھنا، ایک کٹھن کام ہے۔ اس کی قدر وہ لوگ جانتے ہیں، جو اس فن کو صحیح معنوں میں جانتے ہوں۔ امتیاز عابد ؔکی غزل اور اس کی تادمِ تحریر جاری کوششیں یہ بتاتی ہیں کہ مستقبل انہیں کبھی نظر انداز نہیں کرپائے گا۔ جہاں کبھی اعلیٰ غزل کے بارے میں ذکر ہوگا، تو امتیاز عابدؔ کا نام سب سے پہلے ہوگا۔ پشتو ادب میں ان کا نام احترام سے لیا جائے گا۔
مَیں یہ بات مبالغہ آرائی سے ہٹ کر بلکہ کسی حد تک دل کی گہرائیوں سے اور بڑی صداقت سے کہتا ہوں کہ موجودہ سنجیدہ غزل کے حوالے سے امتیاز عابدؔ کی غزل پختونخوا اور خاص کر مردان میں اونچے اور اعلیٰ مقام پر ہوگی۔ پشتو ادب کے اُستاد عبدالروف زاہد صاحب ان پر ہمیشہ فخر کریں گے۔ واضح رہے کہ امتیاز احمد عابدؔ، عبدالروف (مرحوم) کے بھتیجے ہیں۔ آج سے 28 سال پہلے بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری نے امتیاز احمد عابدؔ کو بہترین شاعر قرار دیا تھا۔ اس طرح قلندر مومند صاحب نے انہیں ادب کے اُفق کا درخشاں ستارہ قرار دیا تھا۔
عادل قریشی نے ان کے بارے میں لکھا ہے: ”امتیاز احمد عابدؔ پشتو غزل کی آبیاری اپنے خونِ دل سے کررہے ہیں۔“
ظفر علی حیران طورو مردان نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ ”بے شک امتیاز احمد عابدؔ مردان میں تاج دارِ غزل ہیں۔ میرے خیال میں امتیاز احمد عابدؔ نے پشتو ادب میں غزل کو نہ صرف نیا رنگ دیا ہے بلکہ اسے اونچا مقام بھی عطا کیا ہے۔ امتیاز احمد عابدؔ درویش منش انسان ہیں اور ہمارے جیسے نوجوان شاعروں کے سالار ہیں۔“
راقم (فضل محمود روخان) کی نظر میں امتیاز احمد عابدؔ کا فن ہی ان کی پہچان ہے۔ عابدؔ لفظوں کے جادوگر ہیں۔ اُن کی پشتو شاعری کی نئی کتاب ”یاد“ کے بارے اتنا ہی کہوں گا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو 2020ء میں پشتو غزل کا شاہکار ثابت ہوگی۔
قارئین، ”یاد“ مینگورہ شہر میں سوات مارکیٹ میں ”شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز“ میں بارعایت دستیاب ہے۔ امتیاز احمد عابدؔ کے افکار سے آگاہی کی خاطر مذکورہ کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔