سوات کے ملکوتی حسن اور معتدل موسم سے لطف اٹھانے کے لیے جہاں ہزاروں کی تعداد میں سیاح ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں، وہاں ریاست سوات کے روحانی پیشوا اخوند عبدالغفور المعروف سیدو بابا کے مزار پر روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے بھی حاضری دینا ضروری سمجھتے ہیں۔سیدو بابا نہ صرف ریاست سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں مذہبی طور پر ایک بلند پایہ حیثیت کے حامل انسان تھے۔اس کے ساتھ انہوں نے جدید ریاست سوات کی بنیاد رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے فضل ربی راہی اپنی کتاب ”سوات سیاحوں کی جنت“ میں سیدو بابا کے حوالے سے کچھ یوں رقمطراز ہیں اخوند صاحبِ سوات کا اصل نام عبدالغفور اور والد کا نام عبدالواحد تھا۔
آپ سوات کے علاقے شامیزئی میں جبڑی کے مقام پر 1794 میں پیدا ہوئے۔ آپ افغان قوم کے مہمند قبیلے صافی سے تعلق رکھتے تھے، تاہم بعض مقامی بزرگوں کا خیال ہے کہ ان کا تعلق گوجر قوم سے تھا۔اخوند صاحبِ سوات کو نہ صرف سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں ’سیدو بابا‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔اسی کتاب میںرقم ہے کہ سیدو بابا نے سب سے پہلا جہاد 1835 میں پشاور کے قریب شیخان کے مقام پر امیر کابل دوست محمد خان کی معیت میں سکھوں کے خلاف کیا۔ایک انگریز مورخ ٹونی جیکس اپنی کتاب "Dictionary of Battles and Sieges” میں مذکورہ جہاد کی تاریخ 6 مئی 1834ءلکھتے ہیں۔سیدو بابا نے سپل بانڈئی میں مقیم ہو کر شادی کی۔ آپ کے دو فرزند میاں گل عبدالحنان اور میاں گل عبدالخالق پیدا ہوئے۔ 1848 میں سپل بانڈئی کو خیر باد کہہ کر آپ مستقل سکونت کے لیے سیدو چلے آئے۔ اس وقت سیدو کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی۔ لیکن جب آپ نے اسے اپنی دائمی سکونت کے لیے منتخب کیا، تو اس کی اہمیت اور وقعت میں یکدم اضافہ ہوا۔ آپ کی وجہ سے سیدو تبدیل ہو کر ’سیدو شریف‘ بن گیا۔راہی کے مطابق 1849 میں جب سکھوں کو شکست دے کر انگریزوں نے پشاور پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا تو اخوند صاحب نے سوات، مالاکنڈ اور بونیر کو انگریزوں کے تسلط سے بچانے کے لیے اپنے تمام وسائل جمع کیے۔ پشتونوں کی باہمی دشمنی ختم کروانے اور ایک مضبوط و مستحکم محافظ فوج ترتیب دینے کے لیے آپ نے بار بار جرگے کیے اور شرعی حکومت کے قیام پر زور دیا۔چنانچہ پہلی بار آپ نے ’ستھانہ‘ کے سید اکبر شاہ کی نگرانی میں 1849 میں حکومت قائم کی۔ یہ حکومت نازک اور ناگفتہ بہ حالات میں قائم ہوئی تھی اور ابھی اچھی طرح مستحکم بھی نہ ہوئی تھی کہ 1857 میں سید اکبر شاہ وفات پا گئے۔ اس کے بعد بھی سوات میں مستحکم حکومت قائم کرنے کے لیے آپ نے اپنی مساعی جمیلہ جاری رکھیںجب ستمبر 1863 میں انگریزی فوج کا ایک دستہ ملکا نامی گاوں کو تباہ کرنے کے لیے بونیر کے علاقہ میں داخل ہوا، تو وہاں کے لوگوں نے انگریزوں کی خلاف شدید مزاحمت شروع کی۔اخوند صاحب کا جذبہ جہاد بھی شدت اختیار کرگیا اور آپ 26 اکتوبر 1863 کو باقاعدہ جنگ پر آمادہ ہوگئے۔ انگریز فوج کے پاس ہر قسم کا جدید اسلحہ تھا اور ان کی تعداد دس ہزار تک تھی۔ اس مسلح اور منظم فوج کے مقابلے میں اخوند صاحب کے ساتھی معمولی دیسی ہتھیاروں یا محض لکڑی اور پتھروں سے مسلح تھے اور ان کی تعداد سات ہزار سے زائد نہ تھی۔ یہ لڑائی پوری شدت سے امبیلہ اور ملکا وادءبونیر کے پہاڑی مورچوں میں 20 اکتوبر 1863 سے شروع ہو کر 27 دسمبر 1863 تک جاری رہی۔اخوند صاحب اور ان کے ساتھیوں نے نہتے ہونے کے باوجود بریگیڈئیر جنرل سرنیول چیمبرلین کی افواج کا جس جوانمردی سے مقابلہ کیا، وہ تاریخ کے صفحات میں ایک یادگار دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزوں کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا، خود چیمبرلین بھی شدید زخمی ہوا مجاہدین کی اکثریت بھی شہید ہوئی۔ انگریزوں کو اس لڑائی میں کوئی علاقہ نہیں ملا لہٰذا انہوں نے قلعہ میں آگ لگا دی۔مجاہدین ختم نہ ہوئے اور انہوں نے اپنا مرکز دوسری جگہ بنالیا۔دوسری طرف انگریزوں کے حوالے سے سیدو بابا کی پالیسی کو ڈاکٹر سلطان روم اپنے ایک مضمون "Abd al-Ghafur, the Akhund of Swat” میں تدبیر پسند اور اطاعت شعار رقم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سلطان روم کے مطابق سیدو بابا نے اس وقت علمِ مزاحمت بلند کیا جب قبائل نے ان پر زور ڈالا۔سیدو بابا 12 جنوری 1877 کو وفات پا گئے۔سوات کے مرکزی شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلہ پر سیدو شریف میں آپ کا مزار واقع ہے۔سیدو بابا کی وفات کے بعد تین مختلف انگریز شعراءنے مرثیے بھی لکھے ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ آپ کو صاحب کرامت بزرگ مانا جاتا تھاآج کل چشمے میں مقامی لوگوں نے لاتعداد بجلی کی موٹریں اتاری ہیں اور مقامی آبادی اس سے پانی حاصل کر رہی ہے۔ مختلف اوقات میں برقی رو پانی میں دوڑنے کی وجہ سے مچھلیاں ایک ایک کر کے ختم ہوگئیں اور اب یہ عالم ہے کہ چشمے کا پانی پینے کے لائق بھی نہیں رہا ہے۔سیدو بابا مزار پر زائرین جوق در جوق حاضری دینے آتے ہیں جس کی وجہ سے سیدو بابا میں میلے کا سماں رہتا ہے۔ ہر سال تین قسم کے لوگ بڑی تعداد میں یہاں حاضر ہوتے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو اپریل کے مہینے میں اپنی فصل کاٹ کر شکریہ کے طور پر سیدو بابا مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو گرم علاقوں سے جون تا اگست مسلسل چھوٹی بڑی ٹولیوں کی شکل میں آتے رہتے ہیں۔تیسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو عید کے موقع پر سیدو بابا حاضری دینے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک دور ایسا بھی تھا جب سیدو بابا کے عرس کے موقع پر کافی سارے لوگ حاضر ہوتے تھے۔ لڑکیاں شادی کے بندھن میں بندھنے سے پہلے مزار پر حاضری دینے سہیلیوں کے ساتھ آتی تھیں۔ اس رسم کو یہاں مقامی طور پر ’کوربن والے‘ کہتے ہیں۔سیدو بابا مزارکے ساتھ ایک چھوٹا مگر پررونق بازار ہے جس میں چوڑیاں اور خواتین کی ضرورت کی اشیاءبکثرت ملتی ہیں۔بازار میں بیشتر مقامی لوگوں کی دکانیں ہیں جہاں سے ان کو روزگار میسر ہے۔اب بھی سیاح، مقامی لوگ اور زائرین سوات کی سوغات اور مختلف تحائف خریدنے سیدو بابا بازار آتے ہیں۔ سالہا سال سے مقیم یہاں کے مقامی دکاندار روایتی مٹی کے بنے برتن تیار کرتے ہیں جو زائرین بطور نشانی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔سیدو بابا مزار میں شورش سے پہلے بڑی تعداد میں فقیر ہوا کرتے تھے جن کو ’بابا کے ملنگ‘ کہا جاتا تھا۔انہیں زائرین خیرات و صدقات دیتے تھے۔ ملنگ زائرین کو جھاڑ پھونک سے مختلف بیماریوں سے نجات دلواتے تھے نیز بیماروں کو دعائیں دیتے تھے۔ اس تمام تر عمل پر زائرین کا پکا یقین ہوا کرتا تھا۔ اب مزار کے احاطے میں اک آدھ ملنگ بمشکل دکھائی دیتا ہے۔یہاں پر باقاعدہ لنگرخانہ، مہمان خانہ، سیدو بابا کا کمرہ خاص اور دیگر تبرکات تھے جن کواب بند کر دیا گیا ہے اور صرف خصوصی درخواست پر ان کی زیارت کی جا سکتی ہے۔ سیدو بابا مزار نہ صرف عقیدت مندوں کے لیے ایک قابل احترام جگہ ہے بلکہ اس کے ساتھ سوات کی انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کی تاریخ بھی وابستہ ہے۔