مہمان کالم
آج کا بچہ کل کا مفید شہری ہے جس نے ملک کی باگ ڈورسنبھالنی ہے۔ اگر آج اس بچے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اس کی صحت، اچھی تعلیم اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جائے گا تو ہی یہ بچہ مفید شہری بن کر ملک و قوم کی خدمت کر سکے گا، کہیں کسی اعلیٰ عہدے پر براجمان ہو سکے گا اور معاشرے میں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوا سکے گا۔ مگر صد افسوس کہ ہم اپنے بچوں کو وہ تمام حقوق دینے سے قاصر ہیں جنہیں حاصل کر کے ہی وہ معاشرے میں پھل پھول سکتے ہیں۔ اس ترقی یافتہ دور میں اگر ہم اجتماعی صورت حال دیکھیں تو ہمیں بہت بڑی تعداد میں بچے کوڑے کر کٹ کے ڈھیروں سے کاغذ اور اشیاء چنتے نظر آئیں گے ۔ چائلڈ لیبر اور بچوں کا اس طرح گندے ڈھیروں سے کوڑا کرکٹ چن کر بیچنے سے تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام مسائل کے پیچھے بنیادی وجہ غربت ہے جب تک غربت کی کمی کی طرف حکومت وقت توجہ نہیں دے گی تب تک معصوم بچوں کو اس طرح کی تکلیف دہ صورت حال سے نکالنا ناممکن نظر آتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا تعلق غربت سے بالکل بھی نہیں ہے لیکن ان مسائل پر قابو پانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ مثال کے طور پر بچوں پر جسمانی تشدد، جنسی تشدد اور دیگر تشدد کی اقسام جنہیں ہم سب مل کر ختم کر سکتے ہیں ۔ تشدد کی یہ تمام اقسام معاشرے میں تفریق اور علم سے نا آشنائی کی وجہ سے ہیں ۔ سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ناخواندگی ہے کیونکہ اگر تعلیم عام ہو گی تو معاشرہ تمام قوانین اور بچوں کے حقوق سے آشنا ہوگا اور جب آشنائی ہو گی تو صاف ظاہر ہے کہ تشدد میں بھی کمی آئے گی۔ قانون دان ہونے کے علاوہ بھی مجھے پچھلے دو، تین سالوں سے بچوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ میں چائلڈ رائٹس کمیٹی ایبٹ آبادکا ضلعی کو آرڈینیٹر ہوں۔ علاوہ ازیں فوکل پرسن چائلڈ رائٹس کلب ایبٹ آباد بھی ہوں۔ چائلڈ رائٹس کمیٹی بچوں کے حقوق کی خاطر آواز بلند کر رہی ہے اور بچوں کے حقوق کی جنگ ہر فورم پر لڑ رہی ہے اور الحمد اﷲ کہ مجھے سال 2009ء میں صوبائی ایوارڈ اور سال 2010ء میں نیشنل ایوارڈ ملا ہے۔ سال 2010ء میں پورے پاکستان میں چائلڈ رائٹس کمیٹی ایبٹ آباد پہلے نمبر پر رہی ہے جو کہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ مجھے بچوں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے عرصہ 13سال ہو گئے ہیں۔ ان تیرا سالوں میں Violence Against Children کے تقریباً 1,500مقدمات/ Casesڈیل کئے ہیں ۔ اس 13سالہ تجربے سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ بچوں پر تشدد کی بنیادی وجہ غربت کے علاوہ تعلیم کی کمی اور قوانین کا نہ جاننا ہے اور کچھ سیکٹرز میں تو تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی کچھ چیزوں پر عمل نہیں ہور ہا ہے۔ مثلاً سکولوں میں دی جانے والی جسمانی سزا حکومت نے منع کی ہوئی ہے اور حکومت نے سال 2004 میں باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کیا ہوا ہے مگر اساتذہ کرام اس پر بالکل بھی عمل نہیں کر رہے ہیں اور اسی طرح بچوں کو سخت سزائیں دے رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے سال 2010ء میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بل پاس کر کے ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ اس قانون کے مطابق جسمانی سزا دینے پر چھ ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کافی سزائیں دیگر تشدد کے حوالے سے رکھی گئی ہیں مگر اب اس قانون پر عمل درآمد کروانا حکومت وقت اور ہم تمام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے قوانین موجو د ہیں۔ انٹر نیشنل قانون UN-CRCکے مطابق بچوں پر کسی بھی قسم کا تشدد منع ہے اور اس قانون پر دستخط کرنے والے ملکوں میں خوش قسمتی سے پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل ہے اور اسی کے مطابق ممبر ممالک کو قوانین بنانے پڑے ہیں۔ جس طرح کہ پاکستان میں قوانین موجود ہیں جن میںEmployment Of Children Act 1991 اور JJSO 2000 شامل ہیں اسی طرح بچوں کے حوالے سے جو انٹر نیشنل ڈے منائے جاتے ہیں جن میں سے ایک 20 نومبر یونیورسل چلڈرن ڈے ہے۔ ان دنوں کے منانے کا مقصد عوام کی توجہ بچوں کے حقوق اور مسائل کی طرف دلانا ہے۔ اس آرٹیکل کے توسط سے میری حکومت وقت اور دیگر تمام متعلقہ اداروں اور عوام سے یہی گزارش ہے کہ خدارا ان معصوم بچوں کو ہر طرح کے تشدد سے بچائیے کیونکہ ان معصوم کلیوں نے ہی کل کو اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ ان بچوں سے متعلق تمام قوانین پر عمل در آمد کرنے کے لیے اپنی بھر پور کوششیں کیجیے اور اس دن یہ عہد کیجیے کہ اس اہم قومی فریضے کو ہم سب نہایت تندہی اور ذمہ داری کے ساتھ نبھائیں گے۔