12 نومبر 2019ء کو شایع شدہ مارننگ پوسٹ کی ایک خصوصی رپورٹ ’’ہزاروں سال پرانے بازیرہ کے آثارسیاحوں کی توجہ کامرکزبن گئے‘‘ کے مطابق ’’سوات کی تحصیل بریکوٹ میں سکندرِ اعظم کے تین ہزار سال پرانے شہر ’بازیرہ‘ کے آثارکی دریافت ہوئی ہے۔ اٹلی اور پاکستانی حکومت کے محکمۂ آثار قدیمہ کے ماہرین نے کھدائی کے دوران بریکوٹ میں بازیرہ شہر کے نئے آثار دریافت کئے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق سکندر اعظم 326 قبل مسیح میں اپنے لشکر کے ساتھ سوات آیا تھا۔ مینگورہ کے قریب اوڈیگرام کے مقام پرمخالفین کے ساتھ لڑائی کے دوران اُن کو شکست کے بعد انہوں نے بریکوٹ میں بازیرہ کے نام سے اپنے لئے شہر تعمیر کیا، جس کا شمار اُس وقت کے جدید ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ کھدائی کے دوران ملنے والے آثار کے مطابق بازیرہ شہر میں سکندر اعظم نے چار دیواری بھی کی تھی اور حفاظتی قلعہ بھی تعمیر کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سکندر اعظم سے پہلے بھی بازیرہ میں آبادی کے آثار ملے ہیں۔ سکندر اعظم سے پہلے انڈوگریک، بدھ مت، ہندو شاہی اور پھر مسلمانوں نے بھی بازیرہ شہر میں قیام کیا تھا، جس کے آثار کھدائی کے دوران ملے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پانچ ہزار سال پہلے بھی بازیرہ میں ان مذاہب کے لوگوں نے اس شہر کو آباد رکھا تھا اور یہاں قیام کیا تھا۔ بازیرہ میں کھدائی کے دوران ہزاروں سال پرانے مندرکے آثاربھی ملے ہیں۔ حالیہ کھدائی کے دوران مندر اور راکھ کے آثار ملے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں آگے جا کر لکھا گیا ہے کہ ’’ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق بازیرہ شہر میں تین سے پانچ ہزار سالہ پرانے آثار ملے ہیں جو پاکستان کے سب سے پرانے آثار ہیں۔‘‘ اور یہ کہ ’’ان آثارسے معلوم ہوتاہے کہ سوات میں ہزاروں سال پہلے بھی ہر مذہب اور تہذیب کے لوگوں نے رہائش اختیار کی تھی۔‘‘
اس طرح2020ء کی ایک رپورٹ ’’بریکوٹ غونڈئی، سیکڑوں سال پرانے مندر کے آثاردریافت‘‘ میں درج ہے کہ ’’سوات کی تحصیل بریکوٹ میں 3 ہزار سال پرانے شہر کے ساتھ والی پہاڑی بریکوٹ غونڈئی پر 13 سو سال پرانے مندر کے آثاردریافت ہوئے ہیں…… یہ ’وشتو[وشنو] مندر‘ ہے جس کو 13 سو سال پہلے ہندوؤں نے سوات میں ’ہندو شاہی‘ دورمیں بنایا تھا۔ مندرکے پاس چھاؤنی اور واچ ٹاؤرزکے آثار بھی ہیں۔ اس جگہ پر ایک پانی کی ٹینکی بھی ہے۔ اس ٹینکی میں اس وقت کے لوگ بازیرہ شہر سے پانی کسی طریقے سے لاتے تھے۔ ہندو مذہب ماننے والے اپنی عبادت سے پہلے اس پانی سے اپناوجود صاف کرتے تھے۔‘‘
اور 17 دسمبر2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’سوات کی تحصیل بریکوٹ میں تین ہزار سال پرانے بدھ مت دور کے شہر ’بازیرہ‘ میں 23 سو سال بدھ مت کا ’Apsidal‘ مندردریافت ہوا۔‘‘ مزید یہ کہ ’’ماہرین آثارقدیمہ کا کہنا ہے کہ سال 2000ء سے 2010ء تک بازیرہ شہرمیں غیر قانونی کھدائی ہوئی تھی۔‘‘
12 نومبر 2019ء کو شایع شدہ، مذکورہ بالا رپورٹ میں بازیرہ کو سکندراعظم کا تین ہزار سال پرانا شہر گرداننا درست نہیں۔ اس لیے کہ اسی رپورٹ میں سکندر کا 326 قبلِ مسیح میں سوات آنے کا ذکر ہے۔ ایک طرف بازیرہ کا شہر سکندر کے آنے سے پہلے ہی موجود تھا اور یہاں کے باشندوں نے سکندر کا بھرپور مقابلہ کرنے کی کوشش تھی…… اور دوسری طرف 326 قبلِ مسیح میں سکندر کے آنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکندرکے آنے کے بعد 2019ء تک کل 2345 سال بنتے ہیں نہ کہ 3000 سال۔ ڈاکٹر لوکا ماریہ اولیویئیری کے تحریری جواب کے مطابق بازیرہ کو 3000 سال پرانا شہر قرار دینا اس لحاظ سے مبالغہ ہے کہ اس کی بنیاد 600 قبلِ مسیح کے قریب رکھی گئی تھی۔ پس یہ 2021ء میں اب قریباً 2621 سال پرانا شہر ہے۔ علاوہ ازیں، بازیرہ کی قلعہ بندی سکندر نے نہیں بلکہ انڈو گریکس نے کی تھی، جو سکندرکے بعدکے دورسے تعلق رکھتے ہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’مینگورہ کے قریب اوڈیگرام کے مقام پر مخالفین کے ساتھ لڑائی کے دوران اُن کو شکست کے بعد انہوں نے بریکوٹ میں بازیرہ کے نام سے اپنے لئے شہر تعمیر کیا، جس کا شماراُس وقت کے جدیدترین شہروں میں ہوتا ہے۔‘‘ تو پہلے ہی بتایا گیا کہ بازیرہ کا شہر سکندرکے آنے سے پہلے ہی موجود تھا۔ لہٰذا سکندر کے حوالے سے اس کی تعمیرکی بات ہی ختم ہوجاتی ہے اور اسی لیے تو بازیرہ میں سکندر سے پہلے کے دور کے آثار ملنے کی بات کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں سکندر نے اپنی کامیابی کے بعدسوات میں زیادہ وقت نہیں گزارا تھا۔ اس لیے کہ اسے اپنی فوج کے دوسرے دستے (جسے درۂ خیبر کے راستے بھیجا گیا تھا) سے مل کے ہندوستان کی مہم کو سر کرنا تھا۔ چناں چہ سکندر کا بازیرہ کی چار دیواری اور یہاں پر قلعہ تعمیر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم سوات چھوڑنے سے قبل سکندر نے ’’اورا‘‘ یعنی موجودہ ’’اوڈیگرام‘‘ اور ’’مساگا‘‘ (جس کی صحیح شناخت اورتعین محققین ابھی تک نہیں کرسکے ہیں) کی طرح ’’بازیرہ‘‘ میں بھی اپنی فوج کاایک حصہ یادستہ متعین چھوڑا تھا، تاکہ یہاں پر ان کی بالا دستی قایم رہے…… لیکن سکندر ابھی پنجاب ہی میں تھاکہ سوات میں یونانیوں کے قبضے کے خلاف بغاوت ہوگئی اور یہاں پر ان کے اقتدار کا خاتمہ کیاگیا۔
محولہ بالابیان میں اس حصے یعنی ’’مینگورہ کے قریب اوڈیگرام کے مقام پر مخالفین کے ساتھ لڑائی کے دوران اُن کو شکست کے بعد انہوں نے بریکوٹ میں بازیرہ کے نام سے اپنے لئے شہر تعمیر کیا‘‘ میں ’’مخالفین کے ساتھ لڑائی کے دوران اُن کو شکست‘‘ سے یہ واضح نہیں کہ اس میں شکست مخالفین کو ہوئی تھی یا سکندرِ اعظم کو؟ اگراس کا مطلب سکندر کی شکست ہے، تو یہ درست نہیں۔ اس لیے کہ ’’اورا‘‘ یا اوڈیگرام میں بھی شکست مخالفین یا مقامی لوگوں کو ہوئی تھی، سکندرکو نہیں۔
جہاں تک رپورٹ کے اس حصے کا تعلق ہے کہ ’’سکندرِ اعظم سے پہلے انڈوگریک، بدھ مت، ہندو شاہی اور پھر مسلمانوں نے بھی بازیرہ شہر میں قیام کیا تھا، جن کے آثارکھدائی کے دوران ملے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پانچ ہزار سال پہلے بھی بازیرہ میں ان مذاہب کے لوگوں نے اس شہر کو آباد رکھا تھا اور یہاں قیام کیا تھا۔ بازیرہ میں کھدائی کے دوران ہزاروں سال پرانے مندرکے آثاربھی ملے ہیں۔ حالیہ کھدائی کے دوران مندر اور راکھ کے آثار ملے ہیں۔‘‘ تو انڈو گریک، بدھ مت، ہندو شاہی اور پھر مسلمانوں نے بھی بازیرہ شہر میں قیام، سکندر سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں کیا تھا۔ خاص کر انڈو گریک، ہندو شاہی اور پھر مسلمانوں کا تعلق تو بلاشبہ سکندرکے بعد کے دور سے ہے…… اوربدھ مت کے پیروکاروں کے یہاں پرعروج کازمانہ بھی سکندر سے بعد کا ہے۔ علاوہ ازیں اینڈو گریک اورہندوشاہی سیاسی خاندان تھے، جب کہ بدھ مت ایک مذہب تھا اوراس کے پیروکار مختلف حکم ران خاندانوں کے ادوار میں موجود تھے۔ ڈاکٹر لوکا کے تحریری جواب کے مطابق بدھ مت سوات اور بازیرہ، اشوک کے دورمیں قریباً 250 قبلِ مسیح میں پہنچاتھا۔
مزید یہ کہ نہ تو بازیرہ میں ابھی تک پانچ ہزار سال کے پرانے ایسے آثار دریافت ہوئے ہیں کہ جن کی بنیادپر یہ کہا جاسکے کہ پانچ ہزارسال پہلے بازیرہ میں ان مذاہب کے لوگ آباد تھے اور انھوں نے اس شہر کو آباد رکھا…… اور نہ پانچ ہزار سال پہلے بدھ مت اور اسلام جیسے مذاہب کاکوئی وجود ہی تھا۔ رہی بات یہاں پر ہزاروں سال پرانے مندر کے آثار ملنے کی، تو جیساکہ اگلی رپورٹ سے ظاہرہے کہ یہ مندر ہزاروں نہیں بلکہ 13 سو سال پرانا ہے۔ ڈاکٹر رفیع اللہ خان کے مطابق اس وشنو مندر کو ہندوؤں سے جوڑنے میں احتیاط لازم ہے۔ اس لیے کہ اُس دور میں ہندو مت نامی مذہب کاوجود نہیں تھا۔ اُس دور میں مختلف نظام تھے جن میں سے ایک وشنو مت تھا، اس لیے اُسے ہندو مت کہنا مناسب نہیں۔ اور جیسا کہ 17 دسمبر 2021ء والی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ ہزاروں سال یا 2300 سال پرانا مندر ابھی 2021ء کی کھدائی کے دوران میں ہی دریافت ہواہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق بازیرہ شہر میں تین سے پانچ ہزار سالہ پرانے آثار ملے ہیں جو پاکستان کے سب سے پرانے آثار ہیں۔‘‘ اور یہ کہ ’’ان آثارسے معلوم ہوتا ہے کہ سوات میں ہزاروں سال پہلے بھی ہر مذہب اور تہذیب کے لوگوں نے رہائش اختیار کی تھی۔‘‘ تو جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، بازیرہ میں ابھی تک اس قسم کے پانچ ہزار سال پہلے کے آثار دریافت نہیں ہوئے۔ تاہم ڈاکٹر لوکا ماریا اولیویئیری کے تحریری جواب کی روسے، اگرچہ بازیرہ میں پائے گئے قدیم ترین نقش و نگار والے برتنوں کے شواہد 1700 قبلِ مسیح تک کے ہیں، یعنی سال 2021ء سے 3721 سال پہلے تک کے، لیکن بازیرہ اورغالیگے میں نیولے تھیک کے شواہدبھی ہیں، یعنی حال سے 5000سال قبل کے۔
چوں کہ دنیا میں بہت سارے مذاہب اور تہذیبیں گزری ہیں جن میں سے بیشترکے پیروکاروں اور حاملوں نے یہاں پر رہایش اختیار نہیں کی۔ لہٰذایہ کہنا بھی درست نہیں کہ ’’ان آثارسے معلوم ہوتا ہے کہ سوات میں ہزاروں سال پہلے بھی ہر مذہب اور تہذیب کے لوگوں نے رہائش اختیار کی تھی۔‘‘
2020ء والی رپورٹ میں بریکوٹ غونڈئ پر 13 سوسال پرانے مندر کے آثارکی دریافت ہونے کی بات اس بنا پر ٹھیک نہیں کہ دراصل یہ مندر سال 1998ء تا 2000ء میں یہاں پر کی گئی کھدائیوں کے دوران میں دریافت ہوا تھا۔ اس کا ذکر ان سالوں کی کھدائیوں کی رپورٹوں میں موجود ہے۔ ڈاکٹر لوکا ماریہ اولیویئیری کے مطابق، ہوا یوں کہ سال2001ء میں تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے کارکنان نے اس پرانے مندر کے آثار کو تباہ کرنے کی کوشش کی…… جس کے نتیجے میں اس مندر کے آثار کے بعض باقیات اور ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔ اس کے بعداٹالین آرکیولاجیکل مشن پاکستان نے مزید نقصان اور تباہی سے بچانے کی خاطراس مندرکو دوبارہ بھروا دیا۔ سوات کے حالات میں ٹھہراو آنے کے بعدبھرائی کے ملبے کو ہٹا کر مندر کے آثار کو دوبارہ کھولا گیا۔ لہٰذا2001ء میں نقصان پہنچنے کے بعد مندر کے آثار کی پھر سے بھرائی اور حالات میں ٹھہراو آنے کے بعداس بھرائی کے ہٹانے کو مندر کی دریافت نہیں گردانا جاسکتا…… بلکہ جیساکہ ذکرہوچکاہے، بریکوٹ غونڈئ کے بالائی سرے پرہندوشاہی دورکے اس مندرکی دریافت درحقیقت سال 1998ء تا 2000ء کی کھدائیوں کے دوران میں ہوئی تھی۔
علاوہ ازیں ایک خیال یہ ہے کہ سال2001ء میں بریکوٹ غونڈئ والے مندر کے آثار کی تباہی کی کوشش کو تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے کارکنان سے منسوب کرنے کے کوئی ٹھوس شواہدموجود نہیں اور تباہی کی یہ کوشش دوسرے لوگوں کے ہاتھوں دیگر اغراض و مقاصدکے لیے بھی ہوسکتی ہے۔
بازیرہ کو ’’تین ہزارسال‘‘ پرانا ’’بدھ مت دور‘‘ کا شہر قرار دینا تاریخی حقایق کے منافی ہے۔ اس لیے کہ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کا سنہ وفات 80 سال کی عمر میں اندازاً 484 قبلِ مسیح بتایا جاتا ہے۔ اگر بدھ مت کے آغاز کا سال گوتم بدھ کے 40 سال ہی کی عمر مان لیا جائے، تو بدھ مت کے آغاز کا سال 524 قبلِ مسیح بن جاتا ہے۔ اس طرح بدھ مت کے آغاز سے 2021ء تک کل اندازاً 2545 سال بنتے ہیں۔ تاہم اگر بحث کی خاطر دلیل کے طور پر بھی گوتم بدھ کی پیدایش کے سال ہی سے بدھ مت کا آغازہوناشمارکیا جائے، تو بھی 2021ء تک کل اندازاً 2585 سال بنتے ہیں، تو تین ہزار سال قبل جب بدھ مت کا وجود ہی نہیں تھا، تو بازیرہ کو کیسے ’’تین ہزار سال پرانے بدھ مت دور‘‘ کا شہر گردانا اور مانا جاسکتا ہے؟
جہاں تک ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے یہ کہنے کامعاملہ ہے کہ ’’سال2000ء سے 2010ء تک بازیرہ میں غیرقانونی کھدائی ہوئی تھی‘‘ تو ان ماہرین میں سے ایک ماہر (نام کوبہ وجوہ صیغۂ رازمیں رکھا جا رہا ہے) کی زبانی بیان، اور اس کی تحریری تصدیق، کی رو سے یہ غیرقانونی کھدائی، جس میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین، جن میں غالباًکچھ غیر ملکی بھی شامل تھے، سال 2002ء میں شروع ہوئی تھی اور سال 2008ء تک جاری رہی۔ جب 2008ء میں بریکوٹ غونڈئ کو فوج نے طالبان کے خلاف ایک مورچے کے طور پر سنبھال لیا، تواس غیرقانونی کھدائی کا جاری رکھنا ممکن نہ رہا اوراس طرح 2008ء میں یہ رُک گئی۔
قارئین کی معلومات کی خاطر یہاں پر اس کا ذکربے جا نہیں ہوگا کہ بریکوٹ کی بہ طور ’’بازیرہ‘‘ نشان دہی اورل سٹائن نے 1926ء میں کی تھی اور یہاں پرآثارِقدیمہ کی کھدائی کے کام کی پہلی کوشش بھی اورل سٹائن ہی نے 1933ء میں کی تھی، تاہم گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے وہ کشمیر واپس چلاگیااوراس طرح یہاں پر کھدائی کاکام نہ کرسکا۔
1938ء میں ایورٹ برجراورپلپ رایٹ نے ریاستِ سوات کی تحصیلِ بریکوٹ اورتحصیلِ چارباغ کے علاقوں میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کاکام کرکے موجودہ ضلع سوات میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کا ایک طرح سے پہلا باقاعدہ کام (اگرچہ تکنیکی لحاظ سے کام بے قاعدگی سے کیا گیا تھا) کیا تھا۔ اطالوی پروفیسر جیورجیوسٹکول کے بریکوٹ میں 1700 تا 800 قبلِ مسیح کے آثارکی دریافت کے بعد، اٹالین آرکیولاجیکل مشن پاکستان نے 1977ء میں یہاں پر کام کا آغاز کیا…… اور 1984ء میں پروفیسرپیئیرفرانسسکوکلیئیری نے ’’بازیرہ‘‘ کے پرانے شہر کے نشانات پائے۔ اس کے بعد سے ابھی تک پرانے بازیرہ کے مقام پرمختلف جگہوں پرآثارِ قدیمہ کی کھدائی کے کام کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور اس کے ہرنئے سیشن میں کچھ نہ کچھ نیا دریافت ہوہی جاتاہے۔ ان سب کو مدِنظررکھتے ہوئے گذشتہ سالوں میں، یعنی 2014ء کے بعد، میڈیا میں آنے والی یہ رپورٹیں کہ کئی ہزارسالہ پرانے ’’بازیرہ‘‘ کے شہرکودریافت کیاگیا، حقایق پرمبنی نہیں۔
پرانے بازیرہ کے مقام پرکھدائی کا یہ کام اٹالین آرکیولاجیکل مشن پاکستان، پاکستان کی مرکزی حکومت کے ڈیپارٹمنٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیمز کے اشتراک اور تعاون سے، نیزآئینِ پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیمز کے تعاون اورشتراک سے کرتا چلاآرہاہے۔باقی آیندہ!