ایچ ایم کالامی
اپنے بیان کردہ کو حرف آخر سمجھتا ہوں، اس لیے مقالے کے دفاع کی چنداں ضرورت نہیں۔ بڑے بڑے شعرا، ادیبوں، علما و مشائخ کے تبصروں اور آرا کے بعد واضح بلکہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ ٹماٹر کو حکومت نے جان بوجھ کر ”نایاب“ کردیا ہے۔ ہماری تحقیق کے بعد مصدقہ خبر ملی ہے کہ ایک بدنامِ زمانہ بدزبان وفاقی وزیر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ حکومتی کمیٹی نے حکومت شُغلیہ کے اہم بدزبان و بدتمیز وزرا کی سیکورٹی خدشات پر عمران خان کو ٹماٹر اور انڈے مہنگے کرنے کی سفارشات پیش کی، جس پر عمران خان نے دستخط کرتے ہوئے ٹماٹر سے آغاز کی ہدایت جاری کردی۔ اس حوالے سے جب اکبراِلہ آبادی صاحب سے رجوع ہوا، تو انہوں نے ایک شعر میں نچوڑ پیش کردیا۔ فرماتے ہیں:
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اِک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
پس ثابت ہوا کہ
انڈا مرغی نے دیا اور خان نے معیشت چلائی
ملک میں معیشت نہ چلی پر انڈوں کا کاروبار ہوا
اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے معروف پختو متشاعر فرمان کسکرؔ فرماتے ہیں کہ سرسوں بھی چاچا حکم نے اگائی تھی، مارکیٹ میں سرسوں نہ چل سکا اور ان کی شاعری ابھی تک چل رہی ہے۔
مقالہ پیش کرنے سے قبل ہم مزید تحقیقاتی مواد جمع کررہے تھے کہ راتوں رات خبر ملی کہ ایک ایم این اے محترم جو الیکشن کے بعد سے لاپتا تھے، پہلی دفعہ سوات کوہستان آئے ہیں اور اس بات سے سب بخوبی واقف ہیں کہ ٹماٹر نامی یہ فصلِ نایاب ابھی تک سوات کوہستان کے کھیتوں میں ٹنوں کے حساب سے بکھری پڑی ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ان کے آنے سے قبل مکمل طور پر یقینی بنایا گیا تھا کہ سبزی مارکیٹ میں کوئی بھی دکان کھلی نہ ہو۔ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ سوات کوہستان کے مشہور انڈے فروش روزی گل لالا کو پہلے ہی عمرہ کی سعادت حاصل کرنے بھیج دیا گیا ہے۔ ان مصدقہ اطلاعات کے بعد ہم نے معروف دفاعی تجزیہ نگار سپین خان سے رابطہ کیا، تو انہوں نے بتایا کہ ٹماٹر اور انڈوں کو چوہدی اور اعوان جیسے بدنامِ زمانہ زبان دراز وزراکی سیکورٹی پالیسی کے تحت مارکیٹ سے غائب کردیا گیا ہے۔
اس کے بعد ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بس اپنا مضمون شائع فرمانے کے لیے حضرتِ ایڈیٹر کے حضور پیش کر دیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اکبر اِلہ آبادی کی طرح سوات کوہستان کا ٹماٹر چلتا ہے یا پھر ہماری یہ بے سر و پا تحریر۔
دا گز او دا میدان!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دا گز او دا میدان
