فیصل فاران
غنی خان کی شاعری میں ایک مستقل کردار ہمیں ملا کا نظر آتا ہے۔ جس طرح پختون قوم کو ملا لوگوں نے بے طرح ستایا ہے اسی طرح غنی خان کی شاعری میں ان کی ظرافت کا نشانہ جس طرح سے ملا بنتا ہے تو اس کی مثال کسی دوسرے شاعر کے ہاں شاید و باید ہی ملے۔ طنز و تضحیک و ظرافت ان کی شاعری میں اسی کردار کی وجہ سے عموماً در آتی ہے۔ لیکن ایک سنجیدہ شاعر کے لیے یہ سب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ سر محمد اقبال کی مثال سے بخوبی ہوتا ہے جب انہوں نے کچھ عرصہ چھگی داڑھی والے اکبر آلہ آبادی کی پیروی میں طنز و تضحیک کی طرف بھی توجہ دی لیکن جلد ہی یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔ غنی خان کے ہاں شگفتگی، طنز و مزاح، تضحیک و ظرافت سب ہی کچھ پایا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ اکبر آلہ آبادی کی شاعری کی طرح پھسپھسا ہوتا ہے نہ لجلجا بلکہ اس میں ذہانت و مشاہدہ کی ایک گہری آمیزش ہوتی ہے جس کی بدولت کاٹ کے باوجود ان کا وار برا محسوس نہیں ہوتا۔ شاید میں کچھ غلط بھی کہہ گیا ہوں کیونکہ ظرافت و شگفتگی کے لیے ذہانت و مشاہدہ کی ضرورت لازمی ہوتی ہے۔ ملا غنی خان کا ایک اہم شعری کردارہے جسے سمجھنے کیلئے اسے تاریخ کی نظر سے دیکھنا مفید ہوگا۔ ان واقعات سے غنی خان واقف تھے۔ جواہرلال نہرو نے 1937 کے انتخابات کے بعد مسلم رابطہ عوام پروگرام کمیٹی بنائی جس کے چیئرمین کے ایم اشرف، زیڈ اے احمد اور سجاد ظہیر بنائے گئے، ایک ہفت روزہ اردو مجلہ ’’ہندوستان‘‘ کے نام سے جاری کیا گیا۔ نہرو نے آل انڈیا کانگریس میں دائیں بازو اور ان کی سپورٹ کرنے والے مہاسبھائی ذہن کے سرمایہ داروں کی مخالفت کے باوجود سوشلسٹ اپروچ کے مسلم برادری کی کسان، مزدور پرتوں کے ساتھ معاشی ایشو کو لیکر براہ راست رابطے کا فیصلہ کیا۔ اس پر مفکر پاکستان سر شیخ اقبال نے جناح کو خط لکھا اور ان کو کہا کہ وہ نہرو کے اس پروگرام کے جواب میں حکمت عملی طے کریں اور واضح بیان دیں کہ مسلمانوں کے نزدیک معاشی مسئلہ سے کہیں زیادہ اہم کلچرل مسئلہ ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ اس کے مقابلے میں مسلم عوام رابطہ کا اپنا پروگرام لیکر آئی، مسلم لیگ کا نیا آئین بنا، اور نیا منشور بنایا گیا اور یوپی مسلم لیگ کو نواب اسماعیل خان کی صدارت میں کانگریس کی مہم کا جواب دینے کو کہا گیا- یوپی مسلم لیگ نے کانگریس کی عوام رابطہ مہم کمیٹی کے چئیرمین کو ‘خدا کا منکر کمیونسٹ اور مسلمانوں کا غدار’ قرار دیکر شدید پروپیگنڈا کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبا یونین نے ایم کے اشرف اور زمیندار اخبار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان کو اس معاملے پر بحث کی دعوت دی۔ بحث کے دوران مولانا ظفر علی خان نے ایم کے اشرف پر بلاسفِمی کا ہتھیار استعمال کیا اور لوگ بھاگ ایم اشرف پر حملہ کرنے آگے بڑھے تو کانگریس کے حامی طلبا نے ان کو روکنے کی کوشش کی تو دوبدو جنگ چھڑ گئی۔ کے ایم اشرف کے خلاف مذہبی منافرت اس قدر پھیلائی گئی کہ یوپی میں جن علاقوں میں مسلم نشستوں پر ضمنی انتخابات تھے تو مقامی کانگریس یونٹوں نے کانگریس کی ہائی کمان سے استدعا کی کہ وہ کے ایم اشرف کو الیکشن مہم پر نہ بھیجیںبرٹش میوزیم میں خیبرپختونخوا(اس وقت کے صوبہ سرحد)کے گورنر جارج کننگھم سرکاری خط وکتابت میں لکھتے ہے:Maulana Mohammad Shuaib and Maulana Midrarullah came to see me at Nathiagalli on the 26th August and produced a long draft in Urdu of the pamphlet which they proposed to issue both in the Districts and in Tribal Territories; all good anti-Congress, anti-Japanese and anti-Marxist stuff. They were extremely friendly.”مولانا محمد شعیب اور مولانا مدرار اللہ (سابقہ سپیکر پختونخوا اکرام اللہ شاھد کا والد محترم) 26 اگست کو مجھ سے نتھیاگلی میں ملنے آئے اور اردو میں ایک لمبی تحریر کی صورت میں ایک پمفلٹ تیار کیا جس کے بارے میں انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ اس کی اشاعت (خیبر پختونخوا کے) اضلاع اور قبائلی علاقہ جات دونوں میں کی جائے۔ یہ پمفلٹ کانگریس مخالف، جاپان مخالف اور مارکسیت مخالف مواد پر مشتمل تھا”۔ مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک پاکستان از مولانا احمد سعید (مجلس صیان المسلمین،لاہور 1984 ص:147)کے مطابق مولانا نے اپنا یہ بیان عصر جدید کلکتہ میں شائع کرایا میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر جب دیکھتا ہوں تو اکثر صحیح ہوتا ہے۔میں نے خواب دیکھا گویا میدان حشر قائم ہے اور کچھ حضرات کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔یہ علما و صلحا کا گروہ تھا۔ میں نے دیکھا تو مسٹر جناح بھی عباء پہنے اس گروہ میں کرسی پر بیٹھے ہیں۔میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مسٹر جناح اس گروہ میں کس طرح شامل ہوگئے ہیں تو معاً ایک بزرگ نے جواب دیا کہ مسٹر جناح آج کل مسلمانوں اور اسلام کی بہت خدمت کر رہے ہیں اس لیے ان کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے۔ شبیر احمد عثمانی (” مکالمہ الصدرین” ص 9 ) لکھتے ہیں کہ چھ سو روپیہ ماہوار وظیفہ سرکار فرنگ سے پاتے تھے اس سے سمجھ آجانا ھے کہ وہ کیوں انگریز پروردہ مسلم لیگ کے حمایتی تھے۔ علی برادران جن کا اسلامی ولولہ چندے کا مرہون منت تھا ان کو اور مولانا ظفرعلی خان کو نظام دکن کے ذریعہ انگریزی وظائف مل رہے تھے تحریک خلافت کے دوران عارضی طور بند ھوئے تو پھر سر یامین خان سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ کے کہنے پر کمشنر بمبئی کے حکم پر نظام نے بحال کروائے یقین دہانی یہ ہوئی کہ کانگریس کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ابھارکرسیاست کریںگے اور ایسا ہی ہوا۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے انھوں نے خوب منافرت پھیلائی__کراچی کے مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے 1935 میں ایک فتوی جاری کیا کہ سپیکر میں آذان دینا حرام ہے، کیونکہ اس میں آواز کا عکس ہوتا ہے اصل آواز نہیں ہوتی لیکن سات سال بعدجب یہ ان کی ضرورت بنا تو دوبارہ ایک فتوی دیا کہ میں نے ایک سائنس ٹیچر سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ سپیکر میں آواز کا عکس نہیں ہوتا چنانچہ آذان دینا جائز ہے؟ تو یہ ہیں غنی خان کے زمانے میں بڑے بڑے مولانا لوگوں کاکردار۔ اس تناظرمیں غنی خان کے ہاں ملا کردارکی گوشمالی سمجھ آتی ہے غنی خان کے ہاں ملائیت فکری انجماد، قدامت پرستی وانتہا پسندی کا استعارہ بھی ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی زمانے میں پاپائیت اور اب بھی برھمنیت ہے۔ درحقیقت قدامت پرستی وانتہاپسندی تقدسیت سے جنم لیتی ہے۔ اسکندریہ میں طاعون سے 5848 لوگ لقمہ اجل بن گئے لیکن علما نے علاج کو حرام قرار دیا تھا۔1836 میں ترکی میں وبا آئی صرف یورپی علاقے میں تقریباً125000 ہزار لوگ ہلاک ہوئے لیکن علما کا فتوی تھا کہ خدا کے کاموں میں دخل دینا گناہ ہے۔ اس طرح کا ایک حوالہ غنی خان اپنی کتاب پشتون کے دسویں باب سیاست میں لکھتے ہیںکہ وادی تیراہ میں سنی مسلمانوں کی ایک وسیع ، متحرک آبادی ہے جبکہ ایک چھوٹی، ذہین اور چالاک شیعہ اقلیت بھی بستی ہے۔ دونو ں فرقے خالص آفریدی خون اور وجود کے مالک ہیں۔ وہ (برطانوی) ہند اور افغانستان کے بیچ میں آ گئے ہیں اور انھیں اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ جب (افغان بادشاہ) امان اللہ خان نے تھوڑا سر اٹھایا اور جیسا کہ وہ تھا، ایک لا پرواہ اور لاابالی پٹھان جو کود پڑتا ہو، گورے صاحبوں کو یہ پسند نہ آیا اور جب امان اللہ اپنی ملکہ کے ہمراہ یورپ کے مراکز ِ اقتدار میں ڈانس کر رہا تھا، حسد اور مہم جوئی نے بھوک اور جہالت اور مسیحی سونے کی چمک کے ساتھ مل کر افغانستان کے مرکزِ اقتدار میں تباہ کن لشکر کی شکل اختیار کر لی تھی۔ تیراہ کے شیعہ اپنے پڑوسیوں سے زیادہ ذہین تھے۔ امان اللہ کھلے ذہن کا آدمی اور اسلام کے مختلف فرقوں کو برداشت کرنے والا شخص تھا۔ تیراہ کے شیعہ اس سے محبت کرتے اور اس کی حمایت کرتے تھے۔ وہ جوان بادشاہ کی حمایت میں جنوب سے دفاعی لشکر بھیجنے کو تیار تھے۔
لیکن ٹھہرئیے! افغان مولویوں کی رنجش کے ساتھ ساتھ تیراہ میں بھی فصیح و بلیغ مولوی منظرِ عام پر آ ئے لیکن وہ شیعوں کے بجائے سنیوں سے مخاطب تھے۔ اور ایسے میں جب افغانستان کی علم میں ڈوبی داڑھیاں اور بھاری پگڑیاں نوجوان بادشاہ کے غیر اسلامی، غیر پختون اور عیسائی طور طریقوں کے خلاف تقدس بھرے غیظ و غضب سے ہل رہی تھیں، تیراہ میں وہ شیعوں کے خلاف جنبش میں آئیں جنہیں حضرت عثمان ذوالنورین کا قاتل قرار دیا گیا۔ عشاقِ عثمان کی اکثریت برطانوی ہندوستان کے سیٹلڈ ایریاز (پختون شہری علاقوں) سے آئی تھی۔ شیعہ قتل کرنے والے کو جنت اور حوروں کی نوید سنائی گئی۔ آفریدیوں نے اس پر کان دھرے۔ سونے اور حوروں کی پیشکش ان کیلئے بہت پر کشش تھی۔ انہوں نے اپنی رائفلیں سنبھالیں اور جنت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔اس کے بعد جو ہوا وہ نہ صرف شیعوں ، بلکہ مویشیوں اور درختوں کی خوفناک تباہی تھی۔ جن وادیوں میں شیعہ رہتے تھے، وہ ویران ہو گئیں۔ ان کے میوہ جات کے باغات کے بے شمار درخت کاٹ ڈالے گئے۔ سینکڑوں سال پرانے بادام اور چنار کے درخت چلتی ہوئی آریوں کا شکار ہوئے۔ شیعہ ایسے تباہ ہوئے کہ انہیں امان اللہ خان کی حمایت کا خیال بھی بھول گیا۔ انہوں نے اپنی عقل کی قیمت اپنے خون اور آنسوؤں سے ادا کی اور امان اللہ نے اپنی بصیرت کی قیمت اپنے تاج و تخت سے ہاتھ دھو کر ادا کی۔ اپنی آزادی کے اظہار کی جرات کرنے کے جرم میں وہ اپنی واحد سلطنت سے اور افغانستان اپنے اکلوتے (صحیح معنوں میں) بادشاہ سے ہاتھ دھو بیٹھا اور ایک ارمان کی مدد کرنے کے جرم میں شیعہ اپنے بچوں اور باغات سے محروم ہو گئے۔ ایک بے حس، زیرک اور موثر منصوبہ بندی کی مدد سے کیا گیا بے رحمانہ عمل! میں یہ فیصلہ کرنا آپ پر چھوڑتا ہوں کہ اس خون ریزی، دہشت، سیاہی اور نفرت سے کس نے فائدہ اٹھایا؟یہ قبائلی علاقوں میں اس قسم کی ہزاروں داستانوں میں سے محض ایک داستان ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ کچھ سنیوں کو شاید پتا نہ ہو کہ کس نے ان کو استعمال کیا لیکن شیعوں کو خوب معلوم ہے کہ ان پر کس نے ضرب لگائی۔ کچھ پختوں امان اللہ کو بچانے میں ناکام رہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ کیوں؟مذہبی قدامت پرستی و انتہاپسندی کا عمل ہر جگہ یکساں نتیجہ لاتا ہے اگر اسے مداخلت کا اختیار بالموقع ملے۔ مثلاً آج کل پولیو ویکسینیشن کے خلاف ملا مخالفت کا موازنہ یورپ میں چیچک ویکسینیشن کی اوائلی مہم سے کریں۔ چیچک ویکسین اٹھارہویں صدی کے اوائل میں دریافت کی گئی تھی۔ یہ ویکسینیشن گائے کے خون، پیپ اور دودھ کے اجزا سے بنائی گئی۔ عوام اور پادریوں نے اس دوا کا بائیکاٹ کیا، پادریوں کا کہنا تھا کہ ایک جانور سے بنائی گئی دوا عیسائیت کے خلاف ہے، عوام گائے کے خون اور پیپ کے بارے میں پہلے ہی شک میں مبتلا تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے حکومت نے 1853 میں تین مہینے تک کے بچوں کو حفاظتی ٹیکہ لگانے کا قانون بنا دیا۔ ویکسینیشن مخالف تحریک چلائی گئی یہاں تک کہ 1880 میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد نے احتجاج کیا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ مذہب اضافیت ہے۔ قدامت پرستی بنیادی فکری خاصہ ہے جو انتہا پسندی کا سبب بنتی ہے۔ دوسرے شعراء کے ہاں محتسب فقیہہ واعظ ناصح کے کردار دراصل ملا کے کردار کے مختلف حصے ہیں جو کلاسیکی غزل سے پیوست ہے۔ غنی خان کے ہاں اس طرح کے کردار موجود نہیں بلکہ یہ سب کردار ملا کے کردار میں انلارجمنٹ ہوکر قبیح صورت اختیار کرگئے اور مختلف حصوں کو جوڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ پشتون معاشرے میں اوائل ہی سے ملا کا کردار نسل درنسل زمانہ بہ زمانہ نہایت ہی شرمناک رہا ہے۔ پشتون معاشرے میں پہلی اشتراکی ابھار پیر روشنائی تحریک کے دوران جب یوسفزئی، مندن، بنگش، آفریدی، محمدزئی اور اورکزئی قبائل مغل استبداد سے نمٹنے کا تہیہ کرچکے تھے۔ ناگہاں پیر بابا جو ظہیرالدین بابر کے بھانجے تھے کی آمد ہوئی اور اس کے بعد پشتونوں نے ان کو اپنا مذہبی پیشوا بنا کر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے شروع کئے۔ اس پیغمبر نما شیطان کی تیسری نسل میں بھی میاں نور ان کے پوتے باقاعدہ یوسفزئی مندن قبیلوں کو مروال سیٹھ سے لڑوا کر خود اپنے ہاتھوں سے ان کے گاؤں کے گاؤں بھسم کرواتے رہے اور شکست خوردہ مغل استعمارجن کے بڑے لوگ جیسے بیربل اور زین کوکا وغیرہ یہاں مارے گئے تھے کو سنبھلنے کا موقع ملا۔ پیر بابا کے بعد ان کا شاگرد ایک اور تاجک ٹکڑ گدا اخوند درویزہ، جو بعد میں پشاورکے مغل منصبدار کے ہاں بالاحصار میں بسیار خوری کے بعد بدہضمی کی وجہ سے مرگیا تھا، میدان میں اتارا گیا۔ پیر بابا کا یہ نیم خواندہ معتصب شاگرد جو مغل استعمار کی حمایت اور پیر روشنائی کی مخالفت میں اس حد تک گر گیا تھا کہ یزید کے خلاف امام حسین کے خروج کو بھی ناجائز سمجھتا تھا کیونکہ واقعہ کربلا کی رو سے جابر حکمران کے خلاف بغاوت حق کی پاسداری بن جاتی اور مغل امپرا طوری کے خلاف پختون ابھارکو مذھبی جواز ملنا تھا۔ تاجک ٹکڑ گدے اخون درویزہ نے بھی پختون قبائل کو آپس میں خوب لڑوایا قبریں کھدوا کھدوا کر لاشیں نکلواتا رہا۔ان کا پوتا میاں نور بھی خوشحال خٹک کی راہ اس وقت کھوٹی کرتا رہا جب وہ مغل امپرا طوری کے خلاف سوات کے یوسفزئی قبیلوں کو اتحادی بنانے نکلے۔ درویزہ بعد کے سید احمد بریلوی، بھنڈاری اورطالبان کی طرح مخالف جماعت کی مسلمان عورتوں کو مال غنیمت کے طور پر تقسیم کرواتا رہا۔ اس کے بعد انگریزوں کے زمانے میں قسم قسم کے عجیب و غریب نام رکھنے والے ملا ان علاقوں میں نمودار ہوتے رہے جہاں کی عسکری صلاحیت سے انگریز کو مستقبل میں ذرا کوئی خطرہ لاحق ہونا تھا۔ یہ عجیب و غریب جہاں گشت و گمنام ملا بھی پشتون ملت کو جہاد پر ابھار ابھار کر انگریزوں کے ہاتھوں قتل عام کروا کر پھر اچانک غائب ہوجاتے لیکن ان علاقوں پر انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو جاتا جس طرح آج کل پختونخوا کے مختلف علاقوں میں اچانک طالبان بمعہ امیر صاحب کے نمودار ہو جاتے ہیں، بدامنی شروع ہو جاتی ہے پھر اچانک آپریشن کا فیصلہ ہو جاتا ہے آپریشن کے بعد طالبان بمعہ امیر صاحب کے کسی طرح سے فرار ہو جاتے ہیں اور علاقے میں چھاؤنی کی منظوری عوام کے بہتر تحفظ کی مد میں ہو جاتی ہے۔ ماضی قریب میں افغانستان کے پیٹرو ڈالر فساد میں ملاسمیع ، قاضی سے لیکر مجددی، ربانی، حکمتیار، گیلانی، محمدی، سیاف، حقانی اور ان سے بہت پہلے غازی امان اللہ خان کے خلاف ملا مجدد کے باپ ملا شور بازار کے کردار تک کو انگریزوں کی شہہ حاصل تھی۔ ملا ہر زمانہ میں پشتون ملت کی تباہی و بربادی کا بنیادی محرک رہا ہے۔ملائیت (پاپائیت) اخلاقی قدروں سے فائدہ اٹھا کر فرسودہ اذہان کو اپنے حق میں ہموار کرتی ہے۔ ان کا طریقہ واردات ہزاروں سال سے ایک ہی رہا ہے، اپنی خود ساختہ تصانیف سے مٹھی بھر چیلوں کی جماعت تیار کرنا، آشرم ، دارالعلوم ، جیسے ادارے کھڑے کرکے ایک خاص تعداد میں لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنا اور پھر کسی حکمران کو اپنی وفاداری کا یقین دلا کر بدلے میں ریاستی معاملات میں مداخلت کرنا اور اگر انہیں زیادہ طاقت حاصل ہو جائے تو بادشاہ کا تختہ الٹ کر خود حاکم بن کر قدامت پرستی اور انتہا پسندی کی ترویج میں معاشرے کو پسماندہ اور فکری ارتقا، سماجی شعور کو منجمد کر دیتا ہے۔ اس لئے غنی خان کے ہاں اس کردار کی درگت بنتی ہے۔ یہ تضحیک کا شکار ہوتا ہے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں کیونکہ وہ دور بھی یہ دیکھے ہوئے تھے جب غازی امان اللہ خان کے خلاف ملا شور بازار کی شوریدگی دیکھ کر سر محمد اقبال نے کہا تھا کہ ملا کو افغانوں کے کوہ و دامن سے نکال دو۔ یہ الگ بات ہے کہ سر محمد اقبال کی فلاسفی اور ان کی آئیڈیالوجی کا دم بھرنے ان کی نصحیت و ہدایت کے برعکس ملا کو ھمیشہ اپنے سابقہ آقا فرنگی کی طرح افغانستان کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ہی استعمال کرایا گیا۔ بظاہر افغان حریت پسندوں کی بہادری و جرات کے شب و روز نغمے الاپنے والوں کی حقیقت کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے جب ثور انقلاب کے بعد کابلی فسادی بھگوڑوں کو پشاور یونیورسٹی سے ملحقہ میدان میں عسکری تربیت کے دوران ایک تربیت کار نے ان کو دستی بم کا پن کھینچنے اور پھٹنے کے درمیان وقفہ کی نزاکت سے آگاہ کر رہا تھا تو اس کے ساتھی تربیت کار سینئر افسر نے چیخ کر کہا کہ ان کھوتے دے پتروں کو اس طرح سب کچھ بتاؤگے تو پھر کیا جہاد تیرا پیو کرے گا؟ آخرالدم اب ان اسلامی اخوت و جہاد کا مقدس فریضہ سر انجام دینے والوں کو بے عزت کر کے نکالا جا رہا ہے۔اس تناظرمیں غنی خان کے ہاں ملاکے کردار کی تفہیم آسان ہوجاتی ہے کہ وہ کن معنوں میں اس کردارکوظرافت کا نشانہ بناتے ہیں۔