محمد وہاب سواتی
فضل خالق صاحب کی تصنیف کردہ کتاب ’’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘‘ ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے ملاکنڈ ڈویژن میں عموماً اور سوات میں خصوصاً پائے جانے والے قدیم بدھ مت آثار کے بارے میں لکھا ہے، جس سے پورے علاقے کی تاریخی حیثیت آشکارا ہوجاتی ہے۔
اس کتاب کو اگر تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ پہلا حصہ تعارفی ہے، جس میں گندھارا تہذیب پر بحث کی گئی ہے۔ سوات میں بدھ مت تہذیب کیسی پروان چڑھی؟ اس بحث پر سنگ یون، ہیون سانگ اور ووکونگ سیاحوں کا اس علاقہ کو سفر کا حوالہ دیا گیا ہے، جو بالترتیب 519ء، 630ء اور 742ء میں سوات آئے تھے۔
دوسرا حصہ آج کے دور میں اُس وقت کے اُدھیانہ (سوات) کے آثار کے حوالہ سے مختص ہے، یہ آثار اب بھی موجود ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن اور سوات میں پائے جانے والے قدیم بدھ مت آثار مع تصاویر اس کتاب میں موجود ہیں۔ اس میں ہر تاریخی مقام کا مختصر مگر جامع اور تحقیقی تاریخ موجود ہے۔ 
کتاب کا تیسرا حصہ ان آثار قدیمہ کو درپیش خطرات، آثار قدیمہ اور دیگر عبادت گاہوں کے بارے میں اسلام کی تعلیمات، تہذیبی ورثہ اور آثارِ قدیمہ کی سیاحت پر مبنی ہے۔ اس حصہ میں مصنف نے ان آثار کو مقامی لوگوں ، دہشت گردی اور قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ نیز ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تہذیبی اور تاریخی ورثہ اسلام کے منافی ہے۔ اس حوالے سے قرآنی تعلیمات، احادیثِ مبارکہ اور فتویٰ اس کتاب میں موجود ہے۔
فضل خالق صاحب نے سوات کی تاریخ کا حق ادا کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔سوات کی تاریخ کے حوالے سے کتابیں موجود ہیں لیکن یہ کتاب آثارِ قدیمہ کے حوالہ سے ہے جو کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے ہمت اور حوصلے سے ’’ادھیانہ‘‘ کے متعلق معلومات جمع کی ہے، جو کتابی شکل میں دلچسپ پیرایہ میں مرتب شدہ ہے۔ 
قاری جیسے جیسے کتاب پڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے فضل خالق صاحب کی قابلیت، ذہانت، ان کے اندر موجود تحقیق کی صلاحیت اور سمجھ بوجھ کی قوت محسوس کرتا جاتا ہے۔ 
یہ شخصیت جو پہلی ملاقات میں سادہ لوح سی لگ رہی تھی، اصل میں بڑی عالم، تاریخ دان اور محقق شخصیت ہیں، جنہیں اپنے خطے کی تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں پوری پوری معلومات ہے۔ 
سوات کے لیے فضل خالق صاحب ایک بیش قیمت تحفہ ہیں۔ ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں اور اہلِ سوات کی ناقدری کو دیکھتے ہوئے امجد علی سحابؔ نے بجا طور پر رقم کیا ہے کہ ’’خدا کرے کہ یہ بندہ گزر جائے، تاکہ اہلِ سوات کفِ افسوس ملتے رہ جائیں۔‘‘
میرا ذاتی خیال ہے کہ جب کوئی کام پورے اخلاص اور محنت سے کیا جائے، تو اسے ضرور شرفِ قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ فضل خالق صاحب کی اس کاوش کو بالکل شرفِ قبولیت نصیب ہوئی ہے۔ سوات میں تحقیق اور تاریخی کام کے حوالے سے آپ کا نام ہر دور میں احترام سے لیا جائے گا۔
ایسے کتب کی تیاری میں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے؟ اس کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے کبھی اس موضوع پر کام کیا ہو۔ پوری کتاب اور حوالہ جات پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے مصنف نے کتنے پاپڑ بیلے ہیں۔ ذرا ملاحظہ ہو، فضل صاحب کی کاوش ’’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘‘ کی شکل میں کی جانے والی محنت جو کچھ یوں ہے:
* بدھ مت کی سوانح، تذکرے اور خاکوں پر لکھی گئیں کتب کا مطالعہ ۔
* کئی دیگر تاریخی کتب سے گرد جھاڑی ہے۔
* مختلف کتب خانوں اور عجائب گھروں میں موجود مخطوطوں اور خاکوں سے استفادہ کیا ہے۔
*جدید تحقیق کے بغیر کتاب نامکمل ہے، اسکو پانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔
* معلومات کو قابلِ اعتماد بنانے کے لیے مقالوں، معتبر شخصیات اور بدھ مت کے تاریخی آثار دیکھنے گئے اور ان کی عکس بندی بھی کی۔ آثار کا خود جا کر معائنہ کرکے نہایت ہی عرق ریزی سے مواد جمع کیا ہے۔
اس محنت کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ ’’ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ‘‘ ایک قابل اعتماد تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ سوات میں بدھ مت کے تذکرے پر جتنے بھی مقالات، رسالے اور کتابیں اب تک لکھی گئی ہیں، اس مجموعہ میں سب کا عطر کشید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب ’’شعیب سنز پبلشرز‘‘ کی طبع شدہ ہے، اس کی قیمت چار سو روپے ہیں۔ ضخامت کے لحاظ سے کتاب چھوٹی ہے، لیکن تاریخی مواد اور تحقیقی لحاظ سے یہ نایاب و بیش بہا خزانے کی مانند ہے۔ سوات اور آس پاس کے خطے کے بارے میں تاریخی اور تحقیقی لحاظ سے یہ ایک جامع کوشش ہے، جس کے لیے کتاب کے خالق محترم فضل خالق صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ