قارئین، خیبرپختونخوا میں بھیک مانگنا جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ بل میں بچوں
اور خواتین سے زبردستی گداگری کرانے والے شخص کو پانچ لاکھ جرمانہ یا ایک
سال قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔ بھیک مانگنے والے افراد کی بحالی اور ان
کی تربیت کے لیے ”دارالکفالہ“ کے نام سے ادارہ قائم کیا جائے گا۔
گذشتہ روز پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پر بحث کے دوران میں جسٹس مسرت ہلالی
نے کہا کہ بل پاس ہونے کے باوجود ہر جگہ بھکا ری نظر آتے ہیں۔ انہوں نے
ڈپٹی کمشنر پشاور کو طلب کیا، تاکہ وہ بتا سکیں کہ انہوں نے پیشہ ور
بھکاریوں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟
قارئین، آج کل آپ جہاں بھی جائیں گے، آپ کو ہر طرف بھیک منگے ہی نظر آئیں
گے۔ ضرورت مند اور پیشہ ور میں فرق ختم ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے ضرورت مندوں
کو بھی لوگ کچھ نہیں دیتے۔ اب پاکستان میں بھیک مانگنا ایک پیشہ بن چکا
ہے۔ اس پیشہ کا مافیا کس طرح خواتین، بچوں اور معذور افراد کو کرایہ پر
حاصل کرتا ہے؟ اس کالم میں حاصل کی گئیں معلومات اس مافیا سے تعلق رکھنے
والے ایک شخص کی فراہم کردہ ہیں۔
قارئین، مینگورہ اور دیگر علاقوں میں آج کل آپ کو ایسے بھکاری نظر آئیں گے
جو پشتو یا اردو نہیں بول سکتے۔ پنجاب سے بچوں اور خواتین پر مشتمل
بھکاریوں کی نئی کھیپ سوات اور خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں پہنچا
دی گئی ہے۔ مذکورہ ”مافیا“ پنجاب سے خواتین اور معصوم بچوں کو خیبر پختون
خوا کے مختلف علاقوں میں پہنچا کر ان سے بھیک منگواتا ہے۔ پچھلے دنوں بسوں
کے ذریعے بچوں اور خواتین کو سوات، پشاور، مردان، نوشہرہ اور دیگر علاقوں
میں پہنچایا گیا، جہاں ان کو مختلف علاقوں اور شہر کے چوکوں میں تقسیم کیا
گیا۔ ان خواتین اور بچوں کو لاتے وقت ان کے ساتھ تین تا پانچ ماہ کا معاہدہ
کیا جاتا ہے، جس کے دوران میں یہ لوگ واپس نہیں جاسکتے۔ پنجاب کے اکثر
علاقوں میں مذکورہ ”مافیا“ والدین سے کم عمر بچے بھی کرایہ پر لیتا ہے۔
مافیا کے ارکان جن علاقوں میں بھکاریوں کو لے کر جاتے ہیں، پہلے ہی وہاں پر
ان کے لیے کرایہ کے گھر حاصل کرتے ہیں، جہاں ایک ایک کمرے میں کئی خواتین
اور بچوں کو ایک ساتھ رکھا اور سلایا جاتا ہے۔ ان کے لیے کھانا اور ناشتہ
تیار کیا جاتا ہے۔ پہلے دن مافیا کے ارکان بھکاریوں کو گھر سے ان کے بھیک
مانگنے والے علاقہ تک کا راستہ بتاتے ہیں، تاکہ وہ شام کو باآسانی گھر واپس
آسکیں۔ صبح بھیک مانگنے کے لیے جانے سے پہلے بچوں کو نشہ آور ادویہ دی
جاتی ہیں۔ تاکہ بچے دن بھر سوتے رہیں۔ جب ادویہ کا اثر کم ہوتا ہے، تو
خواتین، ان کو دوبارہ دوا کے عمل سے گزارتی ہیں۔ ان میں سے بعض بچوں کے
ہاتھ یا پاؤں میں پلستر مہارت سے پہنایا جاتاہے۔ بعد میں ایسے بچوں کو
خواتین زمین پر لٹا کر بھیک مانگتی ہیں اور لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی
کوشش کرتی ہیں۔ مذکورہ بھکاریوں کو اردو نہیں آتی۔ اس لیے یہ جب بھیک
مانگتے ہیں، تو صرف”اللہ کے نام پر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اکثر اوقات
پولیس ان کو پکڑ کر بسوں میں واپس پنجاب بھیج دیتی ہے، لیکن علاقہ کے ایس
ایچ اُو یا ڈی ایس پی کے تبادلے کے بعد مافیا کے ارکان بھکاریوں کو واپس
لاتے ہیں۔
اس مافیا کو قریب سے جاننے والے ایک شخص نے بتایا کہ مافیا کے ارکان،خواتین
اور بڑے بچوں کو ایک ایک معصوم اور کم عمر بچہ حوالہ کرتے ہیں۔ ان کو کم
از کم پانچ سو اور زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ شام
کو واپسی کے بعد ان پیسوں میں 30 فیصد کمیشن کا حصہ بھکارن کے کھاتا میں
لکھا جاتا ہے۔ جو بھکاری بھیک کا ٹارگٹ پورا نہیں کرتے، وہ رات دیر تک
بازار میں گھومتے رہتے ہیں اور ٹارگٹ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شام کو
بھکاریوں کے واپس آنے کے ساتھ ہی ان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔ معاہدہ کی
مدت ختم ہونے کے بعد مافیا کے ارکان ان خواتین اور بچوں کو بسوں میں واپس
ان کے گاؤں پہنچاتے ہیں، جہاں ان کو کمیشن کی رقم دی جاتی ہے۔
مافیا کے ارکان پنجاب کے مختلف گاوؤں سے معذور افراد کو بھی لاتے ہیں۔ ان
کے والدین اپنے معذوربچوں کا معاوضہ ایڈوانس میں وصول کرتے ہیں، جس کے بعد
مذکورہ افراد کو مافیا کے ارکان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں
جانے کے بعد زیادہ تر معذور افراد کو مصروف شاہراہوں جہاں سپیڈ بریکر یا
سڑک خراب ہو، وہاں صبح سویرے سڑک کے کنارے لٹایا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ایک
خاتون کو بھٹایا جاتا ہے جس کو معذور شخص کی بیوی کی شکل میں دکھانے کی
کوشش کی جاتی ہے۔ معذور افراد کو مافیا کے ارکان گاڑی میں صبح لاکر چھوڑتے
ہیں۔ شام کو اندھیرا چھانے کے بعد ان کو گاڑی میں واپس ان کے گھر لے جایا
جاتا ہے۔
پنجاب کے جن علاقوں سے ان خواتین اور بچوں کو لایا جاتا ہے، وہاں انتہائی
غربت ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں مذکورہ معصوم بچوں جن کی عمریں تین سے
پانچ سال تک ہیں، کا کیا قصور ہے، جو والدہ کے بغیر کئی ماہ تک قیدیوں کی
طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔کم عمری میں ایسے بچوں کو نشے کا عادی بنا
دیا جاتا ہے۔ یہ ایک اور المیہ ہے۔ کیا ”ریاستِ مدینہ“ میں ایسے بچے بڑے
ہوکر سائنس دان، ڈاکٹر یا انجینئر بنیں گے یا پھر چور، ڈاکو اور لٹیرے؟
یہ بچے بڑے ہوکر جو بھی بنیں گے، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوگا۔ ریاست
ہی اس کی ذمہ دار ہے۔ اس لیے خدارا، پاکستان کے مستقبل کو تباہ ہونے سے
بچائیں۔آئینِ پاکستان کی رو سے یہ حکمرانانِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ اس
مسئلے کا جلد از جلد حل نکالیں۔ نیز مذکورہ مافیا کے خلاف سخت سے سخت
کارروائی کی جائے، تاکہ پھول جیسے معصوم بچوں کا مستقبل تباہ نہ ہو۔ اس طرح
پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے
معذور افراد (خصوصی افراد) کا بھی یہ حق بنتا ہے، کہ انہیں باعزت زندگی
گزارنے دی جائے۔
خواتین، بچے اور معذور برائے کرایہ
