روح الامین نایابؔ
گذشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کے کئی واقعات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ملوث پائے گئے ہیں جو ایک بار پھر کسی ترقی پسند متبادل کی عدم موجودگی میں نوجوان نسل میں پائی جانے والی بے چینی اور نفسیاتی، ہیجان کا ایک انتہائی گھناؤنی اور مسخ شدہ شکل میں اظہار کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں داعش جیسے گروہوں پر نظر ڈالی جائے، تو ان میں شامل زیادہ تر نوجوان کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ خود ’’ابوبکر بغدادی‘‘ پی ایچ ڈی ہیں۔ لہٰذا بنیاد پرستی کا معالہ اتنا سادہ نہیں، جتنا بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بنیاد پرستی کے سماجی غلبے کو بھی اکثرمبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے۔ ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں بھی ماحول کس قدر رجعتی اور گھٹن زدہ ہوچکا ہے، اس کا اظہار مشال خان کے بہیمانہ قتل جیسے واقعات سے بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس واقعے نے بنیاد پرستی اور مذہبی جنون کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے شہ دینے میں تعلیمی اداروں کی انتظامی، ریاستی مشینری اور عدلیہ کے گھناؤنے کردارکو بھی بے نقاب کیا ہے۔ ایسے واقعات اس بیہودہ لبرل تاثر کی بھی نفی کرتے ہیں کہ ’’تعلیم کے ذریعے بنیاد پرستی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘ جیسا کہ گذشتہ عرصے میں ملالہ یوسف زئی کو محور بناکر سامراجی اداروں کی طرف سے باقاعدہ مہم چلائی گئی۔
درحقیقت تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اور ضیاء الحق کے دور سے تعلیمی نظام میں جس طرح جماعت اسلامی اور دوسرے فرقوں کی جماعتوں کی نفری بھرتی کی گئی ہے، نوجوانوں کو مذہبی جنونی بنانے کے لیے وہی کافی ہے، اور یہ حالت صرف سرکاری اداروں میں ہی نہیں بلکہ زیادہ تر نامورنجی تعلیمی اداروں جہاں اشرافیہ اور شہری مڈل کلاس کے بچے پڑھتے ہیں، کا ماحول اور نصاب اس سے کہیں زیادہ رجعتی ہے۔
منشیات کے علاوہ معصوم بچوں سے جنسی زیادتی، عورتوں پر تیزاب پھینکنے کا عمل، غیرت کے نام پر قتل اور زندہ جلائے جانے کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ نظام کے بحران نے سماج کو کس قدر تعفن زدہ کردیا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی ماضیِ قریب کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کا شمار دینا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں خوراک، علاج اور زندگی کے تحفظ وغیرہ کے حوالے سے حالات نہ صرف بچوں بلکہ خواتین اور بزرگوں کے لیے بھی بدترین ہیں۔
ڈھائی کروڑ بچے بچیاں سکولوں سے باہر ہیں، 43 فی صدسرکاری سکولوں کی عمارات انتہائی خستہ حال یا ناقابلِ استعمال ہیں، ناخواندگی کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ان حالات میں تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل انوویشن کے لحاظ سے پاکستان 129 ممالک کی فہرست میں 110ویں نمبر پر ہے۔ پچھلے پانچ سال میں تقریباً 28 لاکھ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرادبہتر کیرئیر کی تلاش میں ملک چھوڑ گئے ہیں۔ طلبہ سیاست پر پابندی اور تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کے شدید جبر کے باوجود پچھلے عرصے میں مختلف تعلیمی اداروں میں کئی طلبہ تحریکیں اٹھی ہیں۔ آنے والے دنوں میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بھی ناگزیر طور پر اضافہ کیا جائے گا،جس کے خلاف نئی تحریکیں اٹھ سکتی ہیں۔
فیسوں سے ہٹ کر تعلیم کی نجکاری، ہاسٹل، کھانے، ٹرانسپورٹ، انتظامیہ کی بدتمیزی اور طالبات کو ہراساں کیے جانے جیسے بے شمار دوسرے سلگتے ہوئے مسائل ہیں جن کے خلاف پہلے بھی احتجاج ہوتے رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی یہ ایشوز طلبہ تحریکوں کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔