شہاب شاھین

جناب وزیر اعظم صاحب! امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔
جناب، چند لمحوں کے لیے سکون کی سانس لیں اور بنی گالہ میں اپنے کمرے کی جانب روانہ ہوجائیں اور تنہائی میں کچھ دیر کے لیے بیٹھ کر چائے کے گھونٹ پی لیں اور ٹیک لگا کر سوچیں۔ سوچیں کہ کیا آپ اپنی کارکردگی سے، اپنی حکومت سے مطمئن ہیں؟ تو آپ کا ضمیر آپ کو آواز دے گا کہ ”بالکل نہیں!“ کیوں کہ الیکشن سے قبل آپ نے بہت بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ ان وعدوں کی بدولت آپ نے غریب عوام سے ووٹ وصول کیا تھا۔ ان وعدوں کی بدولت آپ نے ”آخری امید“ قائم کی تھی کہ ”جب عمران خان اقتدار میں آئے گا، تو وہ اس قوم کی حالت بدلے گا۔“
آپ کے وزرا، تقریروں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر غریب عوام سے کچھ اس قسم کے وعدوں کے زریعے ووٹ مانگتے تے کہ ”خان صاحب اقتدار میں آئیں گے، تو وہ اس ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔
جناب، پھر وہ دن آ ہی گیا کہ تحریک انصاف جیت گئی۔ وہ لمحہ بھی دیکھنے کو ملا، جب غریب عوام کی شکل پر امید نکھر آئی کہ ہاں، پاکستان کی تقدیر بدلنے ہی والی ہے۔
اب پیٹرول سستا ہونے والا ہے۔
ٹماٹر سستا ہونے ولا ہے۔
آٹا سستا ہونے والا ہے۔
گیس سستی ہونے والی ہے۔
عدالتوں کے در و دیوار فخر سے بلند ہونے لگے کہ ہاں، بے قصور کو انصاف ملنے والا ہے۔ امر اور جابر کو سزا ہونے والی ہے۔
لوگوں کی آس بندھ گئی یا باندھ دی گئی!
مگر نہیں جناب، نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ سب کچھ اس کے بر عکس ہونے لگا۔ آپ اپنے وعدوں سے مکرنے لگے، آپ ظالم کا ساتھ دینے لگے، آپ کی حکومت میں ٹماٹر مہنگا ہوگیا، گیس مہنگی ہوگئی، بجلی مہنگی ہوگئی، پیٹرول مہنگا ہوگیا، مگر جنابِ وزیر اعظم صاحب افسوس تو تب ہوا، شکوہ تو تب ہوا کہ آپ اس پورے مہنگائی سے با خبر رہے اور خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہے۔
جنابِ صدر! مَیں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آپ کی مدینہ کی ریاست میں ایک طوائف آکر آپ کے وزیروں کی کرسیوں پر ویڈیوز بنانے لگی۔ مدینہ کی ریاست میں آپ کے وزیروں کے پول کھول کر سامنے لانے لگی، مگر آپ نے اُف تک نہ کی۔
جنابِ من! ہمیں شکوہ ہے کہ آپ کی ریاست میں ”کاشانہ ہاؤسنگ ویلفیئر“ میں یتیم بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، مگر آپ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
جناب وزیر اعظم! کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس زندگی کے بعد آپ سے ان تمام چیزوں کا حساب کتاب لیا جائے گا! ایک ایسی عدالت میں جہاں آپ کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ آپ کی طاقت آپ کا گھمنڈ ادھر کسی کام کا نہیں ہوگا۔
قوم نے آپ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ یہ قوم آپ سے دست بستہ اپیل کرتی ہے کہ خدا کے لیے اس کا حق دیجیے۔لوگ رو رہے ہیں،ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کے ہاتھوں قوم عاجز آچکی ہے۔ آپ کو اس سسٹم کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ ……! آپ کو توآخری امید کے طور پر پیش کیا جارہا تھا، اگر آپ بھی قوم کو ناامید کریں گے، تو کیا آپ کے بعد فرشتے اتریں گے؟