روح الامین نایاب

قارئین! حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنگوٹہ پبلک سکول کے بارے میں ایک اہم فیصلہ سنا کر علم کی لاج رکھ لی۔ بلا شبہ یہ حق و صداقت کی فتح ہے۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ نے مخالف فریق کی وہ اپیل خارج کردی جس میں سنگوٹہ پبلک سکول پر 73کنال 11 مرلے زمین ہتھیانے اور قبضہ کرنے کا دعوا کیا گیا تھا۔ 2002ء سے 2013ء تک یہ کیس یہاں مقامی عدالتوں میں چلتا رہا۔ اس میں ایک دو بار مدعیوں کو کامیابی بھی ہوئی…… لیکن سنگوٹہ پبلک سکول کی انتظامیہ نے استقامت اور حوصلہ سے یہ جنگ جاری رکھی۔ کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ ایک دن حق و صداقت کی فتح ہوگی۔سنگوٹہ پبلک سکول کو سابق والیِ سوات نے 1960ء میں 348کنال 14 مرلے زمین عطا کی تھی۔ والیِ سوات کی یہ عادت تھی کہ خواہ سکول ہو یا ہسپتال، وہ ہمیشہ ادارے کو اچھی خاصی بڑی قطعۂ ارضی دے دیتے تھے…… تاکہ مستقبل کو مزید تعمیراتی کام کے لیے استعمال ہونے میں مشکل نہ ہو۔ 5 سال میں سکول تعمیر ہوا اور 1965ء میں سکول کا آغاز ہوا…… سوات کے علاوہ دور دور سے پھول جیسے بچے آکر جدید نظامِ تعلیم سے آراستہ ہوتے رہے۔ 1969ء میں والیِ سوات کا دور ختم ہوا اور پھر غالباً 1985ء، 1984ء میں زمینوں کے بندوبست کے لیے باقاعدہ ’’پٹوار سسٹم‘‘ متعارف کیا گیا۔حیرانی اس بات کی ہے کہ اس تمام ادوار میں علاقہ کے یہ مدعی چادر تان کر سوتے رہے۔ 2002ء میں یہ جاگ گئے اور اچانک سنگوٹہ پبلک سکول کی زمین میں 73 کنال 11 مرلے کا دعوا کربیٹھے۔قارئین! افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں باشعور عوام علم و قلم کو جائیداد اور زمین پر فوقیت دیتے ہیں۔ وہ سکول بنواتے ہیں۔ سکول اور علمی درس گاہوں کو زمین عطیہ کی کرتے ہیں۔ چندے دیتے ہیں۔ فرنیچر دیتے ہیں۔ پروفیسروں استادوں کی عزت کی جاتی ہے…… لیکن ہمارے ہاں اس حوالے سے گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہم سکولوں اور درس گاہوں کو بموں سے اڑاتے ہیں۔ ہم قلم اور کتابوں کی بجائے بارود کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہم درس گاہ کی کتابوں، لائبریریوں، لیبارٹریوں، فرنیچر، گملے، نقشے، اینٹ، سریے، بسترے، کراکری، برتن غرض ہر چیز لوٹ لیتے ہیں…… آخر یہ شرم ناک حرکات کرتے ہوئے ہماری غیرت، احساس اور ضمیر کیا سو رہے ہوتے ہیں؟ اور جب اس پر بس نہ ہوا، تو ہم نے 1960ء میں والیِ سوات کی طرف سے عطا کی ہوئی زمین پر 2002ء میں دعوا دائر کردیا۔اگر سچ بات کی جائے، تو یہ سکول ہم سب کا اثاثہ ہے۔ یہ ایک طرح سے ہمارا سرمایہ ہے۔ یہ تو ہمارا فخر ہے۔ کسی بھی خطۂ زمین پر جب علم و قلم کا مرکز بن جاتا ہے، درس گاہ بنا جاتی ہے، تو اللہ کے حضور وہ جگہ مقدس بن جاتی ہے۔ وہ علاقے کے عوام کے لیے انعام و اکرام کا سبب بنتے ہیں۔بہر حال اس حوالہ سے کیس 2013ء سے 2021ء تک سپریم کورٹ میں چلتا رہا۔ اس کیس میں تمام اخراجات سکول خود برداشت کرتا رہا۔ اس کے اپیل میں صوبائی حکومت نے نہایت سستی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ مخصوص وقت کے اندر اندر جو عموماً 30دن ہوتا ہے، سکول نے خود بہ خود چابُک دستی سے 13 دن کے اندر اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ دراصل یہ سارا کریڈٹ پبلک سکول سنگوٹہ کے سپروائزر جناب شکیل صادق کو جاتا ہے، جس نے نہایت چابُک دستی سے، محنت اور لگن سے اس کیس کو 2013ء سے 26 نومبر 2021ء کی آخری پیشی تک فالو کیا۔ انہوں نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر نہایت ایمان داری اور جاں فشانی سے اپنا فرض پورا کیا۔ اُنہیں بعض ججوں، افسروں کی سرد مہری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔پہلے پہل اس سکول کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ کافروں کا سکول ہے۔ یہ کفر پھیلاتا ہے۔ یہ ہمارے بچوں کو عیسائیت کی طرف راغب کرتا ہے۔ ہم اکثر افواہوں پر یقین بھی کرتے ہیں اور افواہیں پھیلانے میں خاصے ماہر بھی ہیں۔ ابتدا ہی سے اس سکول میں سوات کے ریٹائرڈ بہترین اساتذہ پڑھاتے رہے اور وہ پورے اسلامی طریقے پر چلتے رہے۔ عجیب اور حیران کن صورتِ حال تو یہ ہوئی کہ جن لوگوں نے والیِ سوات کے زمانے میں اس سکول کی مخالفت کی تھی…… وہ بعد میں اس میں اپنے بچوں کے داخلے کے لیے سفارشیں ڈھونڈتے تھے۔اس سکول کو جب بموں سے اُڑایا گیا، تو اس کے تمام شاگرد جہاں بھی تھے…… خون کے آنسو روتے رہے…… فریاد کرتے رہے کہ ہمارادرس گاہ بلکہ گھر کو تباہ کیا گیا…… ڈھیر سارے بچے اور بڑے، سکول کے ملبے پہ کھڑے ہوکر آنسو بہاتے رہے اور اپنے خوب صورت سکول کے یادگار لمحوں کو یاد کرتے رہے۔ ہر ذی شعور انسان اور اہلِ قلم شرمندہ تھے کہ ہم اس سکول کو بچا کیوں نہ سکے اور جب یہ دوبارہ بنا، تو اہلِ علم کی خوشیوں کی انتہا نہ تھی۔ ہم سب خوشی سے نہال ہورہے تھے کہ علم و دانش لوٹ آئی۔ خوب صورت بچوں کے ترانے، ملی نغمے سنائی دیں گے۔ بچوں کے معصوم قہقہوں سے در و دیوار گونجا کریں گے۔ تحفظ کا احساس انگڑائیاں لے گا اور امن کی فاختائیں نیلے امبر میں دور تک اُڑان بھریں گی۔ ملک و قوم کی بیٹیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گی اور وہ ملک و قوم کے معمار بنیں گی۔قارئین، ہم اس جیت پر سکول انتظامیہ کو دل و جان سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہر بچے، ہر پھول کو مبارک باد دیتے ہیں۔ یہ علم کی جیت ہے۔ یہ دانش کی فتح ہے۔ان شاء اللہ! یہ سکول امن اور خوشی کا پیغام پھیلائے گا۔ آج سے ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم سب اس کے محافظ ہیں۔ ہم سب سپریم کورٹ کے حقیقت پسندانہ فیصلے کو سلام پیش کرتے ہیں اور اس حوالے سے سنگوٹہ پبلک سکول کی انتظامیہ کی استقامت اور حوصلوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ بالخصوص سکول کے سپر وائزر شکیل صادق ہزار بار مبارک باد کے مستحق ہیں…… جنہوں نے دن رات ایک کرکے اس کیس کے جیتنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے کسی نمائشی اور خود نمائی کے بغیر ایک گم نام سپاہی کی طرح اس خطرناک ’’مورچے‘‘ کو فتح کرکے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔مَیں چاہتا ہوں کہ سکول انتظامیہ اور متعلقہ سول سوسائٹی کی سطح پر شکیل صادق کی کوششوں کو سراہا جائے۔ اُسے خراجِ تحسین پیش کیا جائے اور اُس کی حوصلہ افزائی کے لیے اُسے مناسب ’’عزت و احترام‘‘ سے نوازا جائے۔ بے شک اس عظیم فتح اور جیت کے پیچھے اس ایک انسان شکیل صادق کی بے پناہ محنت، کوشش، لگن اور محبت کا جذبہ پوشیدہ ہے۔ محبت اس حوالہ سے کہ اُسے سکول کے ہزاروں معصوم بچوں کے تعلیمی مستقبل کے تباہ ہونے کا احساس تھا۔ اُسے سکول میں چار مذہبی سوسائٹیوں (مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی) کے بچوں کے پُرامن تعلیمی ماحول کا سلسلہ بر قرار رکھنے کی فکر ستاتی تھی۔ اسے مختلف عدالتوں میں ججوں کے سامنے اپنی دلی فریاد اور جذبات سے بہادرانہ انداز میں بیان کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ سکول کا ہر بچہ اُس کا ممنون ہے اور ہم اہلِ قلم اُس کی کوششوں کو سلام کرتے ہیں۔مَیں اپنا آج کا یہ کالم محترم شکیل صادق کے نام کرتا ہوں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین!