نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’تمام لوگوں پر میرے احسانات ہیں، مگر میرے اوپر صدیق اکبر کے احسانات ہیں، جن کا بدلہ قیامت کے دن خود رب العالمین دیں گے۔‘‘

محمد نفیس دانش

اگر ہم تاریخ کا سطحی طور پر بھی مطالعہ کریں تو یہ بات ہم پر سورج کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ خلیفہ بلا فصل سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے پیغمبر اسلام ﷺ پر ایمان لانے میں ہی صرف پہل نہیں کی بلکہ آپ کا ساتھ دینے میں، اپنا مال آپ پر نچھاور کرنے میں، آپ کے لیے مار کھانے میں، آپ کا وزیر و مشیر ہونے میں، آپ کی حفاظت و چوکیداری کرنے میں، سب سے پیاری بیٹی دے کر آپ کا گھر بسانے میں، مرتدین اسلام سے جہاد کرنے میں، دشمنان ختم نبوت کا قلع قمع کرنے میں اور دشمنانِ اسلام کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے میں بھی سب سے پہلے حضرت صدیق اکبرؓ نمبر لے جانے والے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’تمام لوگوں پر میرے احسانات ہیں مگر میرے اوپر صدیق اکبر ؓ کے احسانات ہیں، جن کا بدلہ قیامت کے دن خود رب العالمین دیں گے۔‘‘ صحابہ کرام میں سے صرف آپ ہی وہ عظیم انسان ہیں جن کے لیے جنت کے تمام دروازے کھولے جائیں گے۔ دراصل بات یہ ہے کہ صرف اسلام نہیں بلکہ پوری دنیا میں کسی بھی تحریک اور جماعت میں آج بھی یہی اصول رائج ہے کہ جو لوگ تحریک یا جماعت کے بانی کے ساتھ پہلے دن سے کھڑے ہوں انہیں جو مقام ملتا ہے بعد میں آنے والوں کو وہ مقام نہیں ملتا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ24ہزار پیغمبر تشریف لائے۔

ان تمام انبیا کرام نے دنیا کو توحید کی دعوت دی، تمام انبیا کرام حق پر تھے اور تمام انسانوں سے افضل تھے۔ ہمارے آخری پیغمبر محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیا کرام کے امام بھی بن کر آئے اور آپ کے بعد نبوت کا دروازہ بھی بند ہوگیا لیکن اسلام نے دنیا کے کونے کونے میں پھیلنا تھا اس مقصد کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھی جنہیں ہم صحابہ کرامؓ کے نام سے جانتے ہیں وہ دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے۔

آج جو دنیا بھر میں اسلام پھیلا ہوا ہے اس کا اصل سہرا انہی صحابہ کرامؓ کے سر ہے جنہوں نے دین اسلام کی سربلندی اور دین اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔ جیسے تمام انبیا کرام افضل ترین ہیں ایسے ہی صحابہ کرامؓ کی پوری جماعت مقدس ہے۔ رب کریم نے تمام انبیا کرام کو آسمان پر جمع کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا امام بنا دیا جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ نبی کریم ﷺ تمام انبیا کے سردار ہیں۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کئی بار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو امام بنا کر باقی صحابہؓ کو یہ پیغام دے دیا کہ میرے بعد ابوبکرؓ تمہارے امام ہیں۔ یہی وجہ بنی کہ نبی کریم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد تمام صحابہ کرامؓ اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اپنا امام اور خلیفہ مان لیا۔ تمام صحابہ کرامؓ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کی بیعت کی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ دو سال4 مہینے تک خلیفہ رہے۔

ان کے دور خلافت میں کبھی بھی کوئی شورش یا بغاوت برپا نہیں ہوئی۔ ایک ایسا طبقہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا تھا لیکن نبی کریم ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس نے زکوۃ کا انکار کیا، ان منکرین زکوۃ کے خلاف سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اعلان جہاد کیا اور فرمایا کہ جس کے ذمے زکوۃ کی ایک رسی بھی ہے اسے وہ بھی ادا کرنا ہوگی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا اصل نام عبداللہ تھا، صدیق کا لقب نبی کریم ﷺ نے سیدنا ابوبکر کو دیا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کے والد محترم کا نام عثمان تھا۔ ان کی کنیت ابو قحافہ تھی۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی اور ام الخیر ان کی کنیت تھی۔ ساتویں پشت میں سیدنا صدیق اکبرؓ کا شجرہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے جا کر ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دو وزیر دنیا میں ہیں اور دو وزیر آسمانوں میں دنیا میں میرے دو وزیر ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں جبکہ آسمانوں میں جبرائیلؑ اور میکائیلؑ ہیں۔

سیدنا صدیق اکبرؓ کے اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے جسے بیان کرنا ایک کالم تو کیا کئی کتابوں میں بھی ممکن نہیں۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کا سب بڑا اعزاز یہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ نبی کریم ﷺ کے سب سے بااعتماد ساتھی تھے، اسی لئے ہجرت کی شب نبی کریم ﷺ جناب ابوبکر صدیق کے گھر تشریف لائے۔

آج ترقی کا دور ہے لیکن آج بھی انسان مشکل وقت میں اسی کو اپنا رفیق سفر بناتا ہے جس پر اسے سب سے زیادہ اعتماد ہو۔ پھر جب سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کی باری آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہ کے لئے سیدنا صدیق اکبر کو منتخب کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ کفار سے جنگ میں شہید ہو گئے تو ان کی بیوہ حضرت اسماؓ بنت عمیس کا نکاح شیرخدا حضرت علی المرتضی نے خود سیدنا صدیق اکبرؓ سے کروایا۔

خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صدیق اکبر اور ان کے گھرانے پر مکمل اعتماد تھا۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے لئے رب کریم نے سیدنا صدیق اکبر کی صاحبزادی سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا انتخاب کیا۔ یہ بھی صدیق اکبر کے گھرانے پراعتماد اور محبت کی انتہا تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری ایام سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے گھر میں گزارے اور وہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ بنا۔

یہ بھی سیدنا صدیق اکبر کا اعزاز ہے کہ جب سیدہ فاطمہؓ کا انتقال ہوا تو شیر خدا حضرت علی المرتضی نے سیدنا صدیق اکبر سے کہا کہ جنازہ آپ پڑھائیں اور سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ سیدنا صدیق اکبر نے پڑھایا۔ سیدنا صدیق اکبر کا وصال 63 برس کی عمر میں22 جمادی الثانی13ھجری کو مغرب اور عشا کے درمیان ہوا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا صدیق اکبر کا جنازہ پڑھایا۔ آخر میں پھر سیدنا صدیق اکبر کو ایک اور اعزاز ملا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سیدنا صدیق اکبر کی تدفین ہوئی۔

جب سیدنا صدیق اکبر دنیا سے رخصت ہوئے تو جو تاریخ ساز خطبہ شیرخدا حضرت علی المرتضی نے دیا وہ آج بھی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ شیرخدا فرماتے ہیں کہ اے ابوبکر اللہ تم رحم فرمائے تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب، مونس، معتمد اور ان کے مشیر تھے، تم سب سے پہلے اسلام لائے اور تم سب سے مخلص مومن تھے، تمہارا یقین سب سے زیادہ مضبوط تھا، تم نے خلافت کا وہ حق ادا کیا جو کسی اور پیغمبر کے خلیفہ نے ادا نہیں کیا۔ سیدنا علی المرتضی کا ان شاندار لفظوں میں سیدنا صدیق اکبر کو خراج تحسین پیش کرنا ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے لیکن ہماری بدقمستی ملاحظہ فرمائیں کہ اسلام کی اس غیرمتنازعہ شخصیت کو ان کے دنیا سے جانے کے بعد متنازعہ بنایا گیا۔ پاپی پیٹ کو پالنے کے لئے لوگوں نے کھلے حقائق کو چھوڑ کر گھڑی ہوئی باتوں کا سہارا لیا اور عوام کو ہمیشہ گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

اپنی لاعلمی اور لوگوں کو قریب لانے کے چکر میں سیدنا صدیق اکبرؓ کے غلاموں نے بھی سیدنا صدیق اکبر کے تذکرے چھوڑ دئیے سوائے جمعے کے خطبے کے عام لوگ سیدنا صدیق اکبر کا نام سننے کو ترس گئے۔ ایسی صورت حال میں جھنگ کے شہر سے مولانا حق نواز جھنگوی ایک درد دل لے کر اٹھے اور انہوں نے غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کیا۔ سیدنا صدیق اکبر کا ہم پر حق تو یہ ہے کہ ہم پورا سال اپنی جانیں قربان کر کے بھی ان کی عظمت کا پرچم بلند رکھیں لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تب بھی جمادی الثانی کے مہینے میں ان کی سیرت اور کردار کے بارے میں ضرور بیان ہونا چاہیئے۔

اپنے گھروں میں اور علاقے کی مساجد میں بیشک مقامی علما کرام کا بیان ہو، یہ بیان ہمیں ضرور کروانے چاہئیں تاکہ عام بندہ سیدنا صدیق اکبر کی سیرت اور کردار سے آگاہ ہو سکے کیونکہ آپ کی زندگی کے بارے میں تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نہایت اعلی حاکم، منصف مزاج، متحمل، سادہ دل اور اپنے ذاتی نفع سے بے تعلق خلیفہ تھے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزری۔ افراط و تفریط سے ہمیشہ پاک اور اللہ کے نور سے حصہ لے کر ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔

یہ خیال آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں ہمیشہ رہتا کہ جہاں وہ بندوں کے سامنے جوابدہ ہیں وہاں اللہ کے سامنے بھی جوابدہ ہیں اور وہ قیامت کے دن ان سے ان کے اعمال کا حساب لے گا۔ بندوں کے سامنے جوابدہی کا یہی تصور تھا جس نے ہمیشہ آپ رضی اللہ عنہ کو صراط مستقیم پر گامزن رکھا اور آپ رضی اللہ عنہ کا قدم ایک لمحے کے لیے بھی جادہ استقامت سے ہٹنے نہ پایا۔

ملت اسلامیہ آج جس دور ابتلا سے گزر رہی ہے اس سے نجات حاصل کرنے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم مکمل طور پر اسلامی سانچے میں ڈھل جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نسل نو کو اسلامی تعلیمات کے ہر ہر پہلو سے آگاہ کیا جائے تاکہ ہمارے نوجوانوں کو غوروفکر کا بھرپور موقع مل سکے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، انداز حکمرانی کے کتنے فلسفے تخلیق ہو چکے ہیں، انسانی تہذیبوں نے بلندیوں کو چھوا لیکن آج بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کارنامے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔