ایک انکوائری رپورٹ کے مطابق برطانوی ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈولپمنٹ (ڈیفیڈ) کے پراجیکٹ کے تحت کچھ ایسے سکولوں کو فنڈز دیے گئے ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہے، یا ایسے طلبہ کو سکیم کے تحت وظیفہ دیا گیا ہے جو جعلی انرولمنٹ کے تحت رجسٹرڈ تھے۔تفصیلات کے مطابق برطانوی ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈولپمنٹ (ڈیفیڈ) کی جانب سے خیبر پختونخوا میں تعلیم کے فروغ کے لیے تعلیمی واؤچر سکیم پراجیکٹ کے فنڈز ایسے سکولوں کو دوبارہ جاری ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جنہیں حکومتی ادارے پہلے سے ہی ’گھوسٹ سکول‘ قرار دے چکے ہیں۔

نجی نیوز ویب سائٹ انڈپینڈنٹ اردو کے پاس دستاویزات موجود ہے ، جس میں گھوسٹ قرار دیے جانے والے سکولوں کو فنڈز جاری کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے، جس کے مطابق 76 نجی گھوسٹ سکولز ہیں جہاں جعلی طلبہ کو رجسٹر کیا گیا ہے اور ان پر 2015 سے لے کر 2019 تک سات کروڑ 30 لاکھ کی خرد برد کا الزام ہے، کو جنوری2020  تک دوبارہ چھ کروڑ20  لاکھ روپے واؤچرز کی مد میں ادا کیے گئے ہیں

صوبائی انسپیکشن ٹیم کی رپورٹ میں گھوسٹ یا ایسے سکول جہاں رجسٹرڈ طلبہ کم اورفنڈز زیادہ دیے گئے تھے، کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اسی طرح صوبائی حکومت کی جانب سے آڈٹ رپورٹ میں بھی ایسے سکولوں کی نشاندہی کی گئی۔

تاہم ان رپورٹس میں موجود گھوسٹ سکولوں یا جعلی انرولمنٹ والے سکولوں کے ناموں کا جب حالیہ سکولوں کے ناموں سے موازنہ کیا گیا تو ان میں وہ سکولز بھی موجود تھے جن پر خردبرد کا الزام تھا اور صوبائی اداروں کے رپورٹس کے مطابق ان سکولوں سے ریکوری کرنی تھی

صوبائی حکومت کی اس وقت کی ایلیمنٹری ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی فائنڈنگ رپورٹس میں ایسے 116  سکولوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن پر خردبرد کا الزام تھا۔ ان سکولوں میں مانسہرہ میں51، پشاور میں 32، کوہاٹ میں نو اور سوات میں 24 سکولز شامل تھے جن سے تقریباً 11 کروڑ کی ریکوری کی سفارش کی گئی تھی۔ اس سارے معاملے کے بعد صوبائی حکومت نے پورے صوبے میں ان سکولوں کو خود جاکر چیک کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ طلبہ کو چیک کیا جاسکے۔

پراجیکٹ کے حوالے سے آگاہ ذرائع نے نجی نیوز انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکولوں میں ’جعلی انرولمنٹ‘ چھپانے کے لیے بچوں کے اصلی کی بجائے جعلی نام درج کیے گئے تھے تاکہ انسپکشن ٹیم کو اصلی نام کی بجائے سکول کا نام بتا سکیں اور جاری کیے گئے جعلی واؤچر کو تصدیق شدہ تسلیم کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے۔