پشاور میں پیدا ہونے والے گلزار عالم اپنے نغموں کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو تسکین بخشتے رہے ہیں۔ وہ صرف پشاور میں ہی نہیں بلکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل اور صوبے ننگرہار میں بھی مشہور ہیں۔
لیکن لوگ یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے اس فن کی کیا قیمت ادا کی ہے۔
1987 میں پاکستانی فضائیہ میں بھرتی ہونے والے گلزار عالم ایک اچھے سپاہی تھے تاہم گانے کے شوق نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی اور بالآخر انہیں فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لینا پڑی۔
سریلی جذباتی آواز والے گلوکار گلزار عالم کا شمار ان چند فنکاروں میں ہوتاہے جن کی جذباتی اور انقلابی نظموں سے نہ صرف دہشت گردی اور انتہاپسندی کے مارے ہوئے پختونوں کو منظم اور متحرک کیا جا سکتا ہے بلکہ حقوق کیلئے جاری تحریک کے کارکنوں میں ایک نئی روح بھی پھونکی جا سکتی ہے۔ 14 اکتوبر 1959کو پشاور میں پیدا ہونے والے خیبر پختونخوا کے اس فنکار نے زندگی کے کافی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ 2017 میں گلزار عالم کابل منتقل ہوئے اور وہاں اہلخانہ سمیت زندگی گزار رہے ہیں۔کوئی بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتاکہ خیبر پختونخوا یاپاکستان میں گلزارعالم کے چاہنے والے زیادہ ہیں مگر افغانستان میں بھی گلزار عالم کے چاہنے والوں کی کمی نہیں ہے کابل میں بغیر سرکاری امداد یامیزبانی گلزارعالم کیلئے زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں مگر اس کے باوجود بھی وہ بیوی اور بچوں سمیت دوکمروں کے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہیں اور انتہائی مشکل حالات کا شکار ہیں۔
نوجوانی میں نوکری چھوڑ دی استاد غلام علی اور دیگر نامور گلوکاروں اور موسیقاروں کیساتھ بیٹھنے کے بعد وہ خودبھی گلوکار بن گئے۔ گلزار عالم اس وقت موسیقی کی دنیا میں نمودار ہوئے جس وقت پاکستان میں ضیا الحق کا مارشل لاء تھا اور افغانستان کی سرزمین پرسابق سوویت یونین کے خلاف جنگ اور امریکی اتحادیوں کی مزاحمت زوروں پر تھی۔ ان حالات میں دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے پختون ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھے ایک طرف وہ پاکستان میں مارشل لا کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے کوشاں تھے تو دوسری طرف وہ افغانستان میں اسلام کے نعروں پر پختونوں کے قتل عام پر بھی انتہائی پریشانی کے عالم میں تھے۔ ان حالات میں گلزارعالم اور سردارعلی ٹکر جیسے قوم پرست خیالات پر مبنی گلوکاروں کے نغموں نے ان کو نہ صرف متحرک کیا بلکہ افغانستان کے نوجوان طبقے پر ان کے نغموں اور غزلوں کے مثبت اثرات نمودار ہوئے۔
افغان جنگ کے دوران خیبر پختونخوا بلکہ ملک بھر میں منعقدکئے جانیوالے ثقافتی پروگراموں میں اکثریت افغان نوجوانوں کی تھی جو مقامی نوجوانوں کی طرح گلزارعالم کی نظموں اور نغموں پر جھوم اٹھتے تھے۔ ابتدائی سالوں میں گلزار عالم کو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر کافی پذیرائی ملی۔ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ امریکہ، جرمنی، کینیڈا، یورپ، متحدہ عرب امارات اور دیگرممالک میں بھی وہ کافی مقبول ہوئے۔ 11/9کے بعد جب انتہا پسندی اور دہشت گردی کے رجحان نے خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں کا رخ کیا تو فن و ثقافت سے تعلق رکھنے والے گلوکار اوراداکار اس سے شدید متاثر ہوئے۔ کئی ایک کا خون ناحق کیا گیا درجنوں کو پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیاگیا ۔ گلزار عالم نے بھی حالات سے سمجھوتہ کرکے زندگی گزارنے کیلئے پہلے ایک ریسٹورنٹ اور بعد میں ایک ڈیری فارم کھولامگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔
اگست 2017 میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ گلزارعالم کیلئے ملک چھوڑنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ فوری طور پر وہ کابل چلے گئے اور کابل ہی میں انہوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا جو طرح طرح کی مشکلات ے عبارت ہے۔یوں تو وہ حکومت اور سرکاری عہدیداروں سے بھی شاکی ہیں تاہم عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین سے ان کو شکایات زیادہ ہیں۔ میاں افتخار حسین کو اپنا ذاتی دوست قرار دیتے ہیں مگر ان کے بقول پچھلے کئی برسوں کے دوران میاں افتخار حسین نے کبھی بھی ان کے ساتھ رابطہ کیا نہ ان کی زندگی یا مشکلات کے بارے میں باز پرس کی۔ گلزار عالم نہ صرف اس دھرتی کے فرزند ہیں بلکہ اب بھی مملکت عزیزکے ہزاروں نوجوان گلزار عالم کیساتھ والہانہ محبت رکھتے ہیں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ گلزار عالم کے ساتھ رابطہ کرکے ان کی شکایات کا مداوا کرے اور ان کو باعزت طریقے سے وطن واپس لائے۔ حال ہی میں انڈیپنڈنٹ اردو میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے اپنی زندگی خصوصاً آزمائش اور ابتلاء پر کافی گفتگو کی ہے جسکے کچگ اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ گلزار عالم نے اس فن کی کیا قیمت ادا کی ہے۔ 1987میں پاکستانی فضائیہ میں بھرتی ہونے والے گلزار عالم ایک اچھے سپاہی تھے تاہم گانے کے شوق نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی اور بالآخر انہیں فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لینا پڑی۔
پشاور کے دیگر گلوکاروں کے برعکس گلزار عالم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہی قبیلے کے لیے انقلابی گیت گاتے تھے۔ گلزار عالم کے مطابق ان کے گانوں کو حکومت اپنے لیے اشتعال انگیز خطرہ سمجھتی تھی 60 سالہ گلزار عالم کے مطابق 1987 میں مارشل لا کے دوران انہوں نے اپنے ایک دوست کی شادی کی تقریب میں انقلابی نغمہ گایا جس پر بعد میں انہیں وہاں سے نکال دیا گیا ۔2000کی دہائی میں عالم نے میوزک کے حوالے سے ایک دفتر بنایا اور انقلابی گیت گانا چھوڑ دیے لیکن اس سے بھی مسائل ختم نہیں ہوئے۔ پشاور میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا دفتر اور موسیقی کی دکانیں بند کر دی گئیں اور انہیں وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد تک ہجرت کی لیکن اس سے بھی ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ انہیں وہاں بھی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ دھمکیوں سے تنگ آ کر انہوں نے2015 میں موسیقی سے دستبرداری اختیار کر لی اور پشاور میں ایک ڈیری فارم بنا کر اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ کاروبار اچھا تھا اور وہ اس سے خوش بھی تھے لیکن یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ ایک مقامی مسجد کے امام نے ان پر سنت کا مذاق اڑانے کا الزام لگا دیا۔ ”جمعے کے خطبے میں امام نے کہا کہ میں نے سنت رسول کی توہین کی ہے۔ اس لیے میرے گھر کو آگ لگا دو۔” انہی لوگوں نے ان کے ڈیری فارم پر قبضہ کر لیا۔
ان سنگین الزامات کے بعد میرے پاس اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان ہجرت کر جاں جو یہاں سے قریب بھی تھا۔ ”میں ایک عرصے سے یہاں (کابل) آتا جاتا رہا ہوں۔ یہاں میں نے حامد کرزئی کی حکومت میں پروگرامز کیے تھے۔ یہی مجھے نزدیک اور آسان لگا۔ اس لیے میں یہاں آ گیا۔” 2017میں کابل منتقل ہونے کے بعد انہیں ایک میوزک اکیڈمی اور سٹوڈیو بنانے کا خیال آیا۔ ان کے مطابق یہاں بھی مشکلات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ کابل میں بھی ان کے فن اور میوزک اکیڈمی کا خیرمقدم نہیں کیا گیا۔ گلزار عالم بتاتے ہیں کہ یہ ایک اچھا کاروبار تھا تاہم دو ماہ بعد ہی انہیں سٹوڈیو اور اکیڈمی کو بند کرنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے کابل میں سکول نہیں جاسکتے تھے کیونکہ کچھ لوگ ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ گلزار عالم کے بیٹے مختیار عالم نے بتایا ”پشاور میں ہم سکول جا سکتے تھے، ہم باہر جا کر لطف اندوز ہو سکتے تھے لیکن یہاں (کابل میں) بہت ساری مشکلات ہیں۔ ہم باہر نہیں جا سکتے۔
ہم گھر میں محصور ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی تھم چکی ہے۔”گلزار عالم کو پاکستان بہت یاد آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ان کی سلامتی کی گارنٹی دی جائے تو وہ اب بھی اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ ”میں اپنے بارے میں نہیں بلکہ اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔ میں اپنے لیے دھمکیاں قبول کرسکتا ہوں لیکن اپنے بچوں کے لیے نہیں۔” گلزار عالم کا کہنا ہے کہ ان کی طرح ان کے بہت سے ساتھی گلوکار دھمکیوں کے باعث ملک چھوڑ کر چلے گئے اور اب وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔