(سعیدہ افضل مغل)
اسلام اعلیکم: عرض یہ ہے کہ ہمارے علاقہ باغی ڈھیرئی میں ایک خاتون رہتی ہے جس کا نام بخت مینہ ہے وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے وہ خود پانچ بیٹیوں اور دو چھوٹے بیٹوں کی ماں ہے بخت مینہ خالہ ایک پرائیوٹ ہسپتال میں دائی کی پوسٹ پر آٹھ ہزار تنخواہ پر کام کرتی ہے جس سے وہ اپنی گھر کی ضروریات پوری کرتی ہے،پچھلے دنوں اس کا شوہر بیمار ہوگیا تھا جس کی عمر 62سال ہے بخت مینہ کے مطابق وہ اپنے شوہر کو علاج کروانے ہسپتال گئی تھی جب معائینہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اسے کالا یرقان جسے پشتو میں (تور زیڑے) کہتے ہے کا مرض لاحق ہوگیا ہے وہ بول رہی تھی کالا یرقان کی جو گولیاں ہے یہ پورے خیبر پختونخوا میں شارٹ ہے یعنی نہیں مل رہی، اس نے کہا کہ طبی ٹسٹوں میں اس کے شوہر کو کالا یرقان ثابت ہوا ہے جس سے وہ شدید بیمار ہے، جب بخت مینہ دوائی لینے میدیکل سٹور گئی تو سٹور والے نے کہا کہ اگر وہ شوہر کی جان بچانا چاہتی ہے توعلاج ضروری ہے جس پر چالیس ہزار میں خرچہ آئے گا،کیونکہ وہ ادویات مارکیٹ میں شارٹ ہیں،دکاندار نے بخت مینہ کو کہا کہ وہ اسی صورت میں دوائی دے گا اگر اس کے پاس چالیس ہزار روپے ہے، پاکستان میں غریب بندے کے ساتھ یہ ہورہا ہے، غریب بندہ اتنی رقم کہاں سے لائے،یہ محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب لوگوں کے علاج کا بندوبست کریں،رقم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بخت مینہ خالہ اپنے شوپر کو بغیر دوائی کے واپس گھر لے آئی ہے اور اس کا شوہر گھر میں موت سے لڑ رہا ہے تو میری محکمہ صحت سے درخواست ہے کہ خدا کے لئے غریب لوگوں کے زندگیوں سے نہ کھیلے کیونکہ غریب لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے،وہ گھر کا خرچہ نہیں پورا کرسکتے تو چالیس ہزار کہا ں سے لائینگے اس میڈیکل سٹور والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے جو ادوایات کی قلت پیدا کرتے ہیں، محکمہ صحت کو اس پر بھی سخت نوٹس لینی چا ہئیے۔