سلیمان ایس این

غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر ہی لوگ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ غربت اور گداگری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ چلا آرہا ہے۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے بڑھتی ہے، اور تبدیلی سرکار نے آکر یہی دوکام دلجمعی سے کیے ہیں۔ حکومت، مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ روکنے کے بجائے لوگوں کے لیے کاروبار میں مشکلات پیدا کرکے پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کی تعداد بڑھاتی جارہی ہے۔ گویا گداگری کو جدید شکل دی جا رہی ہے۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس کی وبا سے پوری ہوگئی۔ اس حوالے سے حکمرانوں کو مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔
سوات پریس کلب کے ساتھ سڑک پر مجھے آتے جاتے آج بھکاریوں کی بھرمار دکھائی دی۔ سڑک پر بیٹھا جواں سال لڑکا گھر کا خرچہ چلانے کے لیے گڑ کے گولے بیچتے اور بھیک مانگتے دکھائی دیا۔ ایک ریڑھی بان بھی رو رو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھا تھا کہ اللہ کے نام پہ کچھ دے دو۔ تقریباً سترہ برس قبل جب میں چھوٹا تھا، تو بڑا سستا زمانہ تھا۔ تین روپے کی نان اور تین روپے سوزوکی گاڑی میں مینگورہ سے سیدو شریف کا کرایہ ہوتا تھا۔ اب دونوں کے لیے 10 روپے ادا کرنا پڑتے ہیں، بلکہ ڈیڑھ دو سال قبل جتنے پیسوں میں تقریباًایک لیٹر پٹرول مل جاتا تھا، اب اتنے پیسوں میں نصف لیٹر بھی نہیں ملتا۔ اس تبدیلی نے ہمیں ماضی یاددلا دی ہے۔ اُس زمانے میں اکا دکا فقیر بھیک مانگتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
ہمیں یاد ہے جب ہم فیض آباد سے امانکوٹ نقلِ مکانی کرگئے تھے، جہاں ایک معذورفقیر بھیک مانگنے آیا کرتا تھا۔
معاشرے میں عموماً اپاہج بوڑھے بھیک مانگتے ہیں، یا گداگری کے لیے انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ لوگ رحم کھا کر معذوربھکاریوں کو بخشش دے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں اور جواں سال لڑکیوں اور عورتوں سے بھی بھیک منگوائی جاتی ہے، جس میں باقاعدہ مافیا کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ بھکاری ٹولے خود مختار حیثیت میں بھی گداگری کرتے ہیں۔ ماضی میں فقیربھی بڑے شریف ہواکرتے تھے، جو خیرات کے لیے یہ صدا لگاتے ہو ئے گلی میں سے گزر جاتے تھے کہ ”جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا!“ مگر اب تو بھکاری بھی راہزن بن چکے ہیں، اور لوگوں کے ہاتھوں سے نقدی چھین لیتے ہیں۔ مگر اب جب پوری دنیا میں کورونا وائرس نے ایک وبا کی شکل اختیار کرلی ہے اور ہزاروں لوگ اس مرض سے مر رہے ہیں، مینگورہ شہر اور ملحقہ علاقوں میں لاک ڈاؤن اور پہیہ جام ہے، جو حکومت کی طرف سے احسن اقدام ہے، مگر اس سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور ریڑھی بانوں کا کام ختم ہوچکا ہے، اور ان کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ وہ اب مجبوراً گھر سے نکل کر بھیک مانگ رہے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا درس دینے والی حکومت دعوے تو بہت کر رہی ہے کہ ہم غریبوں کو پیسے اور راشن دیں گے جس میں یہ شبہ ہے کہ کیا یہ پیسے یا اشیائے خورودونش ان غریب مستحق لوگوں کو پہنچ پائیں گے یا نہیں؟ ان غریب اور نادار لوگوں کو اگر راشن یا نقد پیسے مہیا کیے جائیں م تو بھیک مانگنے کی لعنت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں صاحب حیثیت لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔ خیراتی ادارے بھی اپنی حد تک کام کر رہے ہیں۔ آخری بات، یہ وقت پوائنٹ سکورنگ کا نہیں ایک قوم بننے کا ہے۔