نوید عالم
آج پورے چھے دن کے بعد بامرمجبوری گھر سے بازار کی طرف نکلا۔ کیوں کہ ایک طرف وبا کا خوف، تو دوسری طرف ذہن میں لاک ڈاؤن کی ایک خوفناک تصویر بنی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے گھر سے نکلنا محال ہوچکا تھا۔ چوں کہ ہم اہلِ سوات تو کرفیو کا تجربہ و مشاہدہ کرچکے ہیں، اس لیے لاک ڈاؤن کا نقشہ ہمارے ذہن میں کرفیو ہی کا تھا۔ بہرحال گلیوں سے بازار کی جانب رُخ کیا، لیکن جیسے ہی ایک گلی سے دوسری میں داخل ہوتا، تو ایسے لگتا جیسے صرف میں ہی ہوں جس نے کورونا وبا سے خائف ہوکر گھر میں خود کو لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے، اورجیسے کورونا سے صرف مجھے ہی خطرہ ہے، جب کہ دیگر تمام لوگ گلی کوچوں میں مزے سے بیٹھے ہیں اور بچے جن کی حفاظت کی خاطر تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، تاکہ وہ گھر پر رہ کر اس موذی وبا سے محفوظ رہ سکیں، وہی بچے گلیوں میں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیل رہے ہیں، جب کہ کچھ بچے سائیکلوں پر، سڑکوں پر گھوم پھر کر کرتب دکھا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے پاکستان میں یہ وبا ابھی پہنچی بھی نہیں، اور مَیں نے بے وجہ خودکو قرنطینہ کیا ہوا ہے۔
باقی ماندہ دنیا میں عجیب کیفیت اور خوف وہراس کا سماں بندھا ہے۔ ہر بندہ دوسرے سے خطرہ محسوس کررہا ہے۔ ہر حکومت اپنے لوگوں کو ریلیف دے رہی ہے، تاکہ کوئی گھر سے نہ نکلے، اوروہ قومیں بھی اپنی جانوں کی حفاظت کی خاطر حکومت کی بیان کردہ تدابیر پر عمل پیرا ہیں، تاکہ ان کو، ان کے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کو اس وبا سے کوئی نقصان نہ پہنچے، لیکن وطنِ عزیز اور خصوصاً سوات والے تو ایسے گھوم رہے ہیں جیسے اس وبا کی ان کے ساتھ رشتہ داری ہو، یا پھر ان سے معاہدہ ہوچکا ہو کہ ان کو یہ موذی مرض لاحق ہوگا ہی نہیں۔ اور تو اور ہمارے والدین کی لاپروائی تو ملاحظہ ہو کہ کچھ والدین بچوں کو ساتھ لے کر بازاروں میں گھوم پھر رہے ہیں، اگر چہ دکانیں اور مارکیٹ سارے بند ہیں۔
قارئین! جو حالات مَیں محسوس کررہا ہوں، اس سے تو یہی لگتا ہے جیسے کوئی دشمن حملہ آور ہو رہا ہو، اور لوگ تاحال باہر اس لیے گھوم رہے ہوں کہ جب آئے گا، تب بھاگ کر گھروں میں پناہ حاصل کرلیں گے اور یوں دشمن سے بچ جائیں گے۔ جب کہ حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی وبا اور ایسا مرض ہے کہ جس کا حملہ اچانک ہوگا اور پتا نہیں کہ کون یہ مرض اٹھا کر چل پھر رہا ہو اور ہم سے گھل مل رہا ہو۔ اس لیے اگر چہ خوف و ہراس کی ضرورت نہیں لیکن کم از کم احتیاطی تدابیر پر خود عمل کرنا اور اپنے چھوٹوں سے اس پر عمل کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنے بچوں کے لیے ہمیں تگ و دو کرنا پڑے گی جس کا ایک فائدہ ان کی جانی حفاظت اور دوسرا فائدہ ان کی تعلیمی سرگرمی کو جاری رکھنا ہے، تاکہ جو کچھ پڑھ چکے ہیں، وہ ان کے ذہن میں محفوظ رہے، اور کچھ نیا بھی سیکھیں۔ کیوں کہ اگر تعلیمی ادارے بند ہیں، تو یہ بچے ہم سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ بس، ان کو ہم نے کبھی پڑھانے، سکھانے اور توجہ دینے کی کوشش نہیں کی، اور نہ ہمیں فرصت کے لمحات اور مواقع ہی میسر آئے۔ آج وقت بھی ہے اور موقع بھی۔ یہ بچے ہمارے ہیں، ہمارے وطن کا مستقبل ہیں۔ اپنے مستقبل کو روشن رکھنے کے لیے ان کا ساتھ دینا ہماری شرعی ذمہ داری بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ ان کا ہمارے اوپر حق ہے کہ ہم ان کی دینی و دنیوی ضرورتوں اور تعلیم کا خیال رکھیں، تاکہ یہ ایک اچھے انسان کے ساتھ اچھا مسلمان بھی بن سکیں، جس کے بابت دنیا و آخرت میں ہم سے باقاعدہ دریافت کیا جائے گا اور ہم اس کے جواب دہ ہوں گے۔ اس لیے دست بستہ عرض ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کے نقصان کا سبب بننے سے گریز کریں، اور اپنے بچوں پر احتیاطی تدابیر نافذ کروائیں، تاکہ قوم و ملت کا بھلا ہو۔