فضل مولا زاہد

”لیکن بخدا، جیسے ہی ہم نے اُس ”کالے کلوٹے گورے“ کے پُر زور اصرار پر کیشئر روم کادروازہ کھولا، باہر کی طرف پہلا قدم ”رنجہ فرمایا“، تھوڑے سے ٹھٹکے اور سنبھلنے بھی نہیں پا ئے تھے کہ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، دھڑام سے دو زانو ہو کر ہمارے پیروں آگے پہلے سجدہ ریز ہوا، پھر یوں ڈھیر ہوا، جیسا بے جان مادہ۔ یہ سیچویشن دیکھ کرہمارا تو خود اپنا جسم تھر تھراکرروح کو رخصت کرنے کا موڈ بنانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اِس گھٹیا گورے نے اگر جان جانِ آفرین کی سپرد کرنی بھی تھی، تو ایسا کرنے کے لیے ہمارے قدموں کا انتخاب ضروری تھا کیا؟ شکر ہے کہ بغور مشاہدہ کے بعد اُس کی سکڑی ہوئی بھنوویں اوربھیگی ہوئی پلکیں دونوں بیک وقت متحرک محسوس ہوئیں، تو سکون کا سانس لیا۔ کچھ دیر بعد نیولے کی طرح آدھی آنکھیں کھول کر اور ہاتھوں کو ہولے ہولے حرکت دے کر ہمارے گھٹنوں تک پہنچا اور دونوں ہاتھوں کوکچکول بنا یا۔ گویا ہمیں ہدیہئ تبریک پیش کر رہاہو۔ کچھ لحظوں میں مزید سکڑ کر اپنا سَر میرے قدموں کی آغوش میں یوں دے دیا، جیسے ”الحمدُاللہ“ یہ میرے پیر نہیں اُس کی ماں کی گود ہو،اور وہ شیر خوار بچہ دودھ کا طلب گار ہو۔ کچھ دیر اِس فریضہ کی انجام دہی کے بعد اُس نے سر بہ سجود سر کو پھرہلکی سی جنبش دی۔ پھر بھرپور جنبش دی۔ پھر باقاعدہ قاعدہ پہ بیٹھ کر اورہاتھوں سے میرے گھٹنے پکڑ کر نیچے سے اوپر میری طرف بڑھنے لگا۔ ہونٹ ہلاتا رہا۔ پھنسی ہوئی زبان اچانک چلنے لگی، تو دھڑام سے چلانے لگا: ”آئی بِگ یور پارڈن سَر۔ سر، آئی بیگ یور پارڈن!(مَیں آپ سے معافی مانگتاہوں، قبلہ۔ قبلہ، میں آپ سے معافی مانگتا ہوں) مَیں ایک گندہ انسان ہوں،مجھے گالیاں دیں، غلیظ گالیاں دیں۔“ اس صورتِ حال میں ہم خود حیران و پریشان تو کھڑے ہی تھے، ہمارے ساتھ گیس سٹیشن کے تین اطراف میں موجود درجنوں لوگ جو آس پاس کھڑے تھے یہ منظر ”لائیو“دیکھ رہے تھے، بھی کشمکش کا یہ عجیب وغریب حال دیکھنے میں منہمک تھے۔ اب ہمارے حوصلے اور کالے کی بے جا ضد کے پیمانوں کا ایک امتحان تھا، جو جاری تھا۔“
یہ امریکی ریاست ”میری لینڈ“ کے کرین ہائی وے پر واقع کراؤن گیس سٹیشن کے کیشئر آفس کے دروازے پر وقوع پزیر ہونے والے ایک منظر نامے کا نقطہئ عروج تھا۔ سامنے ہی اس چہار رویہ ہائی وے پر ٹریفک کا رش تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ تمام امریکی ریاستوں کو آپس میں یکجا رُکنے اور بھاری بھاری لمبے لمبے لوڈڈ ٹرکوں کی گذر گاہ کی حیثیت سے یہ ذمہ داری ایک زمانے سے اِس کرین ہائی وے کے کندھوں پر دن رات سوارہے، جو تھکتی ہے نہ رُکتی ہے، نہ ہماری سڑکوں کی طرح لحظہ بہ لحظہ ٹوٹتی ہے۔ نائن الیون کے اندوہناک وقوعہ کو ہوئے یہی کوئی جمعہ جمعہ آٹھ دن گذرے ہوئے ہوں گے۔ شام کے مصروف اوقاتِ کار اورکسٹمرز کا رش ہے، جو تھمنے کا نام ہی لے رہا۔ کوئی گاڑی میں پیٹرول ڈالنے میں مصروف، کوئی اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے چھوٹے سے سٹور کے ونڈو کے سامنے کریڈٹ کارڈ ہاتھوں میں تھمائے انتظار کی گھڑیاں گذارنے کے لیے گنگنانے میں مصروف، کئی بد مست کڑیاں اپنے کڑوں دے نال نال کولڈ ڈرنکس کی مشین کے ساتھ خرمستیاں اور اٹھکیلیاں سوجھتی ہوئیں ہماری بے زاری پر صلواتیں بھیجتی ہوئیں، تو کوئی گاڑی کے ٹائرز میں ہواچیک کرنے والی مشین کے نوزل کے ساتھ افراتفری میں غراتا ہوا، غرض ”جتنے لوگ، اتنے کام۔“ ویسے ہمارے ملک میں تو ابھی شروعات ہوئی ہے، لیکن امریکی گیس سٹیشنوں میں ایک زمانے سے گاہگ کو ہر ممکن سہولت بہم پہنچانے کا خیال ضرور رکھا جاتا ہے۔اس میں پیٹرول کی فراہمی اور گاڑی کے ضروری چیک اَپ کے علاوہ ایک قسم کی کریانے کی دُکان بھی واقع ہوتی آئی ہے۔ ہاں، تو اُدھر وہ تماشا اوراِدھر یہ تماشا کہ ان سارے اعمال کے ”کرتے دھرتے“ ہم کیشئر ایک کالے کے ہاتھوں میں پھنسے حیران و پریشان کھڑے ہیں، جب تک اُن کو گالی نہ بکیں تو خیر نہیں۔ یہ کالا عمر میں چالیس کے پیٹے کے آس پاس سے گذرتا ہوا، سَر اور چہرے کو تازہ تازہ استرے سے خوب صاف و ہموار کیا ہوا، مینڈک شیپ شکل، رنگت بلا کا چیری بلاسم، ایک بنیان اور جانگی میں ملبوس کاؤنٹی کے کالوں کے گینگ کا سربراہ، ایک مخلوق اس کی بدمعاشی سے پریشان، ایک حسین نازک اندام مرمریں سفید گوری چٹی ٹین ایجر لڑکی ہر لحاظ اور ہر ادا ئے نازکے ساتھ تیار تگڑی اور رَڈی اس کی کار کی اگلی نشست پر براجماں اِس نظارے کوحیرت سے دیکھتی ہوئی۔ ”میری لینڈ“ میں اب یہ ٹرینڈ عام ہے کہ گوریاں کالوں کی گود میں دھمال ڈال کر مزے اُڑانے میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتی ہیں اور کالیاں گوروں کے دلوں پر پیار ویار کی تیر یں برساتی رہتی ہیں، جسے دیکھ کر ہم اکثرسکتے میں چلے جاتے ہیں۔ کیوں کہ سکتے میں نہ جا کر ہم اشعار کے سوا اور کیا ڈھول ڈال سکتے ہیں؟ کہیں منیر شکوہ آبادی نے یہ کلاسیک شکوہ ہمارے واسطے تو نہیں کیا ہوگا؟
کیوں نہ ہوں حلقہ بگوش آ کر حسینانِ بہشت
حوروں کے کانوں کی بالی ہیں تمہاری چوڑیاں
ہاں، تواِس نروَس بریک ڈاؤن والے صورتِ حال کا پس منظر یہ تھا کہ نائن الیون کے وقوعہ کے ہفتہ دو ہفتہ بعد امریکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ایک خط ڈاک کے ذریعے ہمارے گیس سٹیشن کو بھی پہنچا، جس میں نائن الیون کے واقعے کے مختصر ذکر کے علاوہ لکھا تھا کہ امریکہ حالتِ جنگ میں ہے اور یہاں کے باسی شدیدغم واندوہ کی حالت میں ہیں۔ خط میں تمام مہاجر خاص کر پاکستانیوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ کسی امریکی باشندے کے منفی رویہ پر کان نہ دھریں، اور کہیں کوئی گالم گلوچ پر اُتر آئے، تو اُس کو گالی سے جواب دینے کی بجائے ”تھینک یو“ کہا جائے۔ بات تو تھی بڑی عجیب۔ہمارے تو کان کیا بال بھی کھڑے ہوگئے۔ کوئی آپ کو گالی دے اور آپ جواب میں اُس کو تھینک یُو کہیں، یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی! ہمارے جیسے دیرینہ و پارینہ، جدی وپشتی صاحبِ بہادر خان پختون کے عقلِ سلیم کو یہ عمل کہاں گوارا ہے۔ اُن کے شہریوں کی گاڑیوں میں پیٹرول بھرتے ہیں ہم، تو کیا ہوا؟ آخر عزتِ سادات بھی تو کوئی چیز ہے جو کھوٹ کھوٹ کے بھری ہوئی ہے ہم میں، جیسے اُمید سے ہوں۔ خیر، ہمارے ساتھ گیس سٹیشن میں ایک انڈین پارٹنر بھی تھا۔ وہ ڈیوٹی پر آیا، تو ہم نے وہ خط اُ ن کو یوں تھما دیا کہ وہ فوری طور پر گوروں کو یوں ہی کچھ گالیاں بک کر زمین و آسمان کے قلابے ملائے گا، اور خط کو پھاڑ کر پھینک دے گا، لیکن بڑا عجب ہوا۔ اُس نے خط پر سرسری نظر دوڑائی اور بڑے پُرتپاک انداز میں بولا، ”ٹھیک ہے۔ یہ کون سی بڑی بات ہے۔ ہم کیوں کسی کو گالی دیں گے؟ یہ دیکھ کر ہم نے خط کو ٹرے میں ڈالا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
آج یہ کالاکلوٹا گورا شراب کے نشے میں دھت گیس سٹیشن آیا۔ پیٹرول ڈالا۔ کسٹمر وِنڈو میں آ کر پہلے کچھ سودا سلف لیا۔ پھر غور سے ہمیں دیکھنے لگا اور جب یقین ہوا کہ ہم پاکستانی ہیں، تو اچانک اُس کا پارہ چڑھنے لگا اور ایک دم گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ گالیوں کو سنی اَن سنی کرتے ہوئے ہم اُسے تھینک یُو کہتے رہے۔ وہ گالیوں کا اور ہم تھینک یوُ کا گردان کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد وہ سنجیدہ ہوا۔حیرت سے ہمیں دیکھنے لگا اور کہنے لگا، تم کیسے شخص ہو، ہم تمہیں گالی دے رہے ہیں اور تم تھینک یُو کہہ رہے ہو؟ ہم نے کہا آپ کے منھ سے وہ اچھی لگ رہی ہیں، ہمارے منھ سے یہ۔ آپ اپنی گردان فرمائیں، ہم اپنی گردان کرتے رہیں گے۔ یہ سن کر کالا یک دم سوچ میں پڑگیا۔ سوچتے سوچتے چکرانے لگا۔ کچھ ہڑبڑانے لگا۔ چیخنے لگا۔ پھر اچانک گڑگڑا کر معافیاں مانگنے لگا۔ ہم نے کہا، جا ہم نے تجھے معاف کیا! لیکن اِس سے اُس کی تشفی نہیں ہوئی۔ وہ ہمارے آفس کے دروازے کے ساتھ کھڑا ہوگیا ور دروازہ کھولنے کی استدعا کرنے لگا۔ پہلے تو ہم ٹال مٹول سے کام لیتے رہے، لیکن جب اُس کی ضد حد سے بڑھنے لگی، تو اللہ کا نام لے کر ہم نے دروازہ کھولا، جسے کھولتے ہی وہ ہمارے قدموں میں گر کر رو نے لگا۔ ہم نے بار بار اُس کو معاف کرنے اور نہ رونے کی تلقین کی، تب کہیں جا کر اُس کو تسکین ملی۔اِس وقوعہ نے ہماری فکر کی رو میں ایک انقلاب بپا کیا۔ تب سے بس یہی خیال اپنے ذہن پر سوار رہتا ہے کہ کاش کوئی ہمیں گالی دے اور ہم جواب میں اس کا شکریہ ادا کریں۔
”تھینک یو مسٹر براؤن! آپ نے ہمارے ذہنوں سے فرسودہ سوچوں کی جڑوں کو کاٹ ڈالا۔“
ازاں بعدمسٹر براؤن ہمارا اتنا پکا دوست بن گیا کہ ”میری لینڈ“ میں اپنے قیام کے دوران میں کوئی پرندہ بھی پَر مارنے کی خواہش کرتا، تو ہم سے پوچھ کرکرتا۔ بڑے بڑے نامی گرامی، منھ زور کالے اپنے مرید بنے۔ گنجلک عقیدوں پر بحث ہو یا بین المذاہبی ہم آہنگی جیسے دور کے سُہانے ڈھول ہوں، جس ترتیب و ترکیب کے ساتھ ہم نے اُسے بجانا شروع کیا اور جو دادِتحسین سمیٹنا شروع کی، وہ الگ کہانی ہے۔ کسی بھی کالے کاکسی بھی موضوع پر کوئی سوال میدان میں پھینکنا اور اُس پر ہماری فصاحت و بلاغت کا عالم ملاحظہ فرمانا ہو، تو اُن کے ایمان کا جزو لاینفک بن گیا جیسے۔ چاہے وہ ہماری بات سمجھتا یا نہ سمجھتا، اِس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اپنی بھرپور گندمی سلیٹی فیس ویلیو کی اہمیت تھی، مسٹر براؤن کا دھاک تھا اور ہم تھے دوستو!
یہ نائن الیون نہ ہواہوتا، تو قریب تھا کہ ہم اُن کے کوئی بڑے روحانی پیشوا بن جاتے اور آج سوات کے دحشت ناک ماحول سے دور کالوں گوروں کے وطن کی راج دہانی میں راج کر رہے ہوتے اور کسی کالی حسینہ کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص و سرود کی محافل کے سرغنہ ہوتے۔ آپ سے کیا پردہ،کالی کڑیوں نے ہمیں بڑا دانہ دُنکا بھی ڈالا اور یہ سمجھا کر کفرانِ نعمت نہ کرنے کی نصیحت بھی پلے باندھ لی کہ یاری دوستی اور تابع داری رنگ ونسل، جنس، عقیدے اور مذہب کے ملاوٹ سے مبرا ہوتی ہے۔ اِس قول کا ہم مقدور بھر بھرم رکھنے کے لیے تیاری بھی کر چکے تھے کہ نائن الیون نے ہمارے خوابوں کو اتناچکنا چور کر دیا جتنا اُس نے ٹوئن ٹاورز کو کیا تھا۔ بقولِ چچا غالبؔ
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا