رواں سال جنوری میں چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کے نام سے شروع ہونے والی وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے اکثر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چند ہی ہفتوں میں ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک اس وبا کے سامنے بے بس نظر آنے لگے۔ اس کی روک تھام کے لیے پہلی بار دنیا بھر کے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔ اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے 80 لاکھ لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔ اموات کی تعداد 5 لاکھ کے قریب ہے، جب کہ 41 لاکھ لوگ صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔
دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان بھی کورونا سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب ہے، اور تین ہزار کے قریب افراد اس بیماری کے سبب زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے انسانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک کی معیشت کو کافی نقصان پہنچا ہے، جس کا صحیح اندازہ تو اس وقت ہوگا جب اس وبا کی روک تھام کے بعد دنیا ایمرجنسی سے معمول کے حالات کی طرف لوٹ آئے گی۔
قیامِ پاکستان کے بعد یہاں پر قدرتی اور انسانی آفات مختلف شکلوں میں آتی رہی ہیں جن میں سیلاب، زلزلے، وبائی امراض، جنگیں، علاقائی اور مقامی تنازعات، شدت پسندی اور دہشت گردی شامل ہے۔ ہر آفت نے انسانوں کو متعدد مسائل و مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ ہر دفعہ کی طرح اس بار ہمیں کورونا وائرس کی وجہ سے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا وبا کے معاشی اثرات کے علاوہ معاشرتی اور نفسیاتی مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ آمد و رفت اور اشیائے خور و نوش کی ترسیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوتی جارہی ہے۔ روایتی اور ثقافتی اقدار بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں لوگ خوف زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ انجان سی کشمکش اور کیفیت میں مبتلا ہیں۔
بہتر و مؤثر طرزِ حکمرانی اور جامع پالیسی و حکمت عملی کا فقدان، آفات سے نمٹنے کے لیے انتظامی سطح پر تیاری کا نہ ہونا اور عوامی سطح پر شعوری آگاہی میں کمی ایسے عوامل ہیں جو کسی بھی آفت کے بعد ہمارے معاشی و معاشرتی ڈھانچوں کو بمشکل سنبھلنے دیتے ہیں۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ سے سیکھتی ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر ”لیگ آف نیشن“ کا قیام امن وامان کے لیے ضروری سمجھا گیا تھا۔ اس طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ کا ظہور بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکے واقعات کے بعد جاپان کا لڑائیوں کی جگہ بحالی و آبادکاری پر توجہ مرکوز کرنا، جنگِ افیون کے بعد چینی عوام کا خوشحالی کے لیے مشترکہ جد و جہد اور دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد یورپین یونین یعنی مضبوط و غیر متزلزل یورپ کا قیام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ماضی سے سیکھنے کا رواج بہت کم ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے انہیں بھولنے یا پھر ان کی پردہ پاشی کے عادی ہیں، اور ہمارا یہی قومی رویہ ہمیں نقصان اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر غور کیا جائے، تو کورونا وائرس کی وبا نے ہمیں بہت ساری چیزیں بتائی اور سکھائی ہیں۔ اس مختصر سے مضمون میں صرف اس کا خلاصہ ہی ممکن ہوسکے گا۔ اس وبا نے جہاں اجتماعی اور انفرادی رویوں کی سنجیدگی کو عیاں کیا ہے، وہاں حکومتی اور انتظامی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ بیشتر افراد اپنے گھر سے کام کرسکتے ہیں۔ انہیں لازمی طور پر کام کے لیے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم نے سیکھا کہ فاسٹ فوڈ کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے۔ چھوٹے موٹے جرائم کے لیے جیلوں میں قید لوگوں کو رہا کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں زیادہ اسپتال بنانے کی اہمیت اور ضرورت کی آگاہی آگئی ہے۔ کورونا وائرس نے ہمیں بتلایا کہ ہم غریبوں پر اربوں روپے بغیر دکھاوے کے خرچ کرسکتے ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بھی اضافہ ہوا ہے کہ غریب ممالک کی طرح ترقی یافتہ قومیں بھی کسی نہ کسی حوالے سے کمزور ہوتی ہیں۔ کرونا وائرس نے بتایا کہ ہمارا خاندانی نظام اور غمی و خوشی کی روایات اب بھی فعال ہیں۔ ہمیں یہ بھی احساس ہوا ہے کہ تعلیمی اداروں خصوصاً اسکولوں نے ہمارے بچوں پر سخت دباؤ اور غیر ضروری بوجھ ڈالا ہوا ہے۔ ہم نے سیکھا کہ ہمارے پاس پیسا بہت ہے، اگر اسے عقلمندی سے استعمال کیا جائے۔ ہمیں یہ بھی احساس ہوا ہے کہ ہم غیر ضروری طور پر بہت زیادہ پیٹرول خرچ کرتے ہیں، تاہم سیر سپاٹوں کے بغیر بھی خوش رہا جاسکتا ہے۔اور یہ کہ ہر نئے ڈیزائن والے کپڑے یا جوتے خریدنا ضروری نہیں۔
کورونا وبا ہی کی وجہ سے ہمارے علم میں آیا ہے کہ انفکشن، ہلاکتوں اور صحت یابیوں کی تعداد کا پتا لگانے کے لیے قابلِ اعتماد اعدادوشمار حاصل کرنے کی شدید ضرورت اور قلت ہے۔
کورونا وبا نے ہمارے ہاں ہسپتالوں اور دیگر مراکزِ صحت کی حالت زار، لیبارٹریوں کی مؤثر پذیری اور فعالیت، جدید طبی اور سائنسی تحقیق کا فقدان، محکمہئ صحت اور اس سے جڑے ماہرین اور عملے کی استعداد کاری، محکمہئ صحت کے لیے مختص وسائل، ادویہ اور طبی آلات کی عدم دستیابی اور صحتِ عامہ کے حوالے سے حکومتی ترجیحات و اخراجات پر سوالات اٹھائے ہیں۔
آفات سے نمٹنے اور ان کے خطرات و اثرات سے بچنے کے لیے حکومتی انفراسٹرکچر، انتظامی اور مقامی سطح پر وسائل کی تقسیم، ترتیب و ترسیل اور عوامی آگاہی کا ازسرِنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی ازسرنو تشکیل اور ان کے لیے متعلقہ قانون سازی، ضلعی اور مقامی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیٹیوں کا قیام اور ان کی استعدادکاری بڑھانا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔
پائیدار ترقی، خوشحال پاکستان کی ضامن ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ بحیثیتِ مجموعی اپنے ماضی سے سبق حاصل کیا جائے۔ قومی اور صوبائی سطح پر ضروریات اور ترجیحات کے تعین اور حصول کے لیے بلا تفریق، حقیقت پسندانہ، جواب دہ، موزوں اور نیک نیتی پر مبنی منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے، تاکہ پاکستان میں آباد تمام لوگوں کے جان ومال کے تحفظ اور بنیادی حقوق کے فروغ کو حقیقی معنوں میں یقینی بنایا جاسکے۔