فضل ربی راہی
شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سوات اور اہلِ سوات کی قسمت میں صوبے کے وزیراعلیٰ اور آپ جیسے متحرک نوجوان کی شکل میں ایک بااثر وفاقی وزیر کا منصب آگیا ہے، جس کا غیرمعمولی فائدہ اس لیے اہل سوات کو ہونا چاہیے کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے سوات کو نہ صرف ہر دورِ حکومت میں دانستہ یا غیردانستہ طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے، بلکہ طالبانائزیشن، فوجی آپریشنوں اور پھر 2010ء میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی سوات اور اہلِ سوات کو مسائل اور مشکلات کے ایک تباہ کن گرداب میں پھنسا دیاتھا۔
یہ تفصیل تو ایک جملہئ معترضہ کے طور پر لکھ دی۔ مَیں اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتا ہوں جس کا تعلق آپ کی وزارت سے ہے۔
مینگورہ مسلسل پھیلتا ہوا ایک بے ہنگم شہر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی آبادی 5 لاکھ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے، لیکن اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر حکومت کی طرف سے کوئی شہری منصوبہ بندی یا نئے حالات کے مطابق اس کے بہتر نظم و نسق کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دیگر بہت سے مسائل سے قطعِ نظر مینگورہ کا ایک اہم مسئلہ جدید سہولتوں سے آراستہ ”پوسٹ آفس“ کا بھی ہے۔ مینگورہ کا موجودہ پوسٹ آفس، گرین چوک کے قریب ایک گلی میں واقع ہے جس میں اس وقت صرف چار ملازمین کام کرتے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ یہ پوسٹ آفس جدید سہولتوں سے آراستہ تھا اور اس میں 15 سرکاری ملازمین کام کرتے تھے۔ یہاں آنے والے لوگوں کا ایک جم گھٹا نظر آتا تھا لیکن اس وقت اس میں قدم رکھتے ہوئے اس کی ویرانی دیکھ کر وحشت کا احساس ہوتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس میں مزید بہتری آنی چاہیے تھی لیکن اس میں تعینات عملہ میں سے جیسے جیسے کوئی ملازم ریٹائر ہوتا جاتا، اس کے متبادل کے طور پر کوئی نیا اہل کار تعینات نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے یہ تعداد گھٹتے گھٹتے چار تک آپہنچی ہے۔ نتیجے کے طور پر یہاں موجود ویسٹرن یونین اور یوٹیلیٹی بلز وغیرہ جمع کرانے کی سہولتیں بند کرنی پڑیں۔ جب یہاں سٹاف پورا تھا، تو اس وقت ویسٹرن یونین کے تحت روزانہ ایک کروڑ سے زائد کی رقم کی ٹرانزکشن ہوتی تھی اور روز چار پانچ سوکے قریب بجلی کے بل جمع کرائے جاتے تھے، جس سے عوام کو سہولت اور پوسٹ آفس کے محکمہ کو اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا تھا۔ اس وقت مینگورہ کے پوسٹ آفس میں دو افراد اندر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، جب کہ دو پوسٹ مین پورے مینگورہ کی ڈاک تقسیم کرتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں مینگورہ جیسے بڑے شہر کے لیے صرف دو پوسٹ مین موجود ہیں ۔
دس بارہ سال قبل مینگورہ میں تین پوسٹ آفس وجود رکھتے تھے۔ موجودہ پوسٹ آفس کے علاوہ ایک پرانے ڈاک خانہ روڈ پر اور دوسرا نشاط چوک میں موجود تھا، جس کی وجہ سے اہلِ شہر کو بڑی سہولت میسر تھی لیکن بعد ازاں نہ صرف ان دو پوسٹ آفسز کو بند کردیا گیا بلکہ موجودہ پوسٹ آفس کو بھی ویران کردیا گیا۔
موجودہ پوسٹ آفس کی اپنی عمارت ہے لیکن اس کی صفائی کا انتظام اتنا ناقص ہے کہ اس کے اندر جاتے ہوئے اچھی خاصی اُلجھن ہوتی ہے کہ بندہ کسی پوسٹ آفس میں داخل ہو رہا ہے یا کسی ردی کی دکان میں۔ اس سلسلے میں جب موجود سٹاف سے بات کی گئی، تو بتایا گیا کہ صفائی کے لیے ایک شخص کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں جسے مہینے میں صرف سو روپے کا معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس معاوضے میں وہ شخص روزانہ آکر صفائی کیسے کرسکتا ہے؟ موجود سٹاف نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انھیں Contingency Allowance کے تحت محکمہ کی طرف سے ماہانہ صرف 81 روپے دیے جاتے ہیں جس میں انھیں پورے مہینے کے لیے بال پوائنٹ، سٹیپلر پن، سلوشن ٹیپ اور گوند وغیرہ خریدنا ہوتا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ تمام سرکاری محکموں میں پوسٹ آفس کا محکمہ کتنا غریب اور پس ماندہ ہے؟
مینگورہ پوسٹ آفس کے موجودہ سٹاف نے مجھے ایک اور مسئلہ بھی بتایا۔ انھیں سٹیٹمنٹ کے لیے محکمہ کی طرف سے ایک پروفارما دیا گیا ہے، جس میں انھیں بتایا گیا ہے کہ پورے مہینے کا سٹیٹمنٹ تین دنوں میں تیار کیا جائے۔ محکمہ کے اعلیٰ حکام کا حکم درست ہے، پورے مہینے کا سٹیٹمنٹ تین دنوں میں تیار ہوسکتا ہے، لیکن جب آفس میں صرف دو افراد کام کر رہے ہوں اور انھیں پانچ لاکھ کے شہر کے روزانہ ہزاروں خطوط اور سیکڑوں پارسل نمٹانا ہوں، ساتھ ہی کسٹمرز کے خط، پارسل، رجسٹریاں، وی پی پی اور منی آرڈر پوسٹ کرنے ہوں، تو دو افراد بے چارے پہلے کون سا کام سر انجام دیں گے؟ محکمہ کی طرف سے پروفارما کی ایک نمونہ کاپی تو بھیج دی گئی ہے لیکن پورے مہینے میں اس کی سیکڑوں فوٹو کاپیاں بنانے کے لیے کوئی بجٹ کیوں مختص نہیں کیا گیا ہے؟ کیا موجودہ سٹاف بال پوائنٹ، سٹیپلر پن، سلوشن ٹیپ اور گوند وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان سیکڑوں فوٹو کاپیوں کے لیے بھی رقم اپنی جیب سے ادا کرے گا؟
پرانے وقتوں میں پوسٹ آفس کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سیدو شریف میں ہوا کرتا تھا لیکن اس زمانے میں فخرالدین نامی شخص یونین کا صدر تھا اور اس کا تعلق بٹ خیلہ سے تھا، اس لیے اس نے اپنے اثر و رسوخ سے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بٹ خیلہ میں ایک کرایہ کی عمارت میں منتقل کردیا جب کہ سیدو شریف کے جی پی او سے متصل محکمہ کا ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس موجود ہے جو والئی سوات کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کیا ڈویژنل آفس اسی ریسٹ ہاؤس میں قائم نہیں کیا جاسکتا جس سے محکمہ کو صرف کرایہ کی مد میں ماہانہ پچاس ساٹھ ہزار روپے کی بچت ہوسکتی ہے، اور مذکورہ ریسٹ ہاؤس میں محکمہ کے مستقل چوکیدار کی موجودگی کی وجہ سے ایک ملازم کی تن خواہ بھی بچ سکتی ہے۔ سوات ملاکنڈ ڈویژن کا ہیڈکوارٹر ہے اور تمام سرکاری محکموں کے ڈویژنل دفاتر سوات ہی میں ہیں، اس لیے پاکستان پوسٹ کا ڈویژنل آفس بھی سوات میں ہونا چاہیے، اس سے محکمہ میں موجود ملازمین کو زیادہ فائدہ اور آسانی رہے گی۔
محترم مراد سعید صاحب! یہ صورتِ حال تو صرف مینگورہ شہر کی ہے۔ آپ کے آبائی گاؤں کبل کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی پوسٹ آفس کی صورتِ حال اسی طرح مخدوش اور مایوس کن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مینگورہ اور سوات کے دیگر بڑے تجارتی مراکز میں پاکستان کی تمام پرائیویٹ کورئیر سروس کمپنیوں کے آفسز موجود ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ترقی کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے جب سرکار اپنے اس اہم محکمہ کی ترقی کی طرف توجہ نہیں دے گی، اس کے ملازمین کے مسائل کا ادراک نہیں کرے گی، تو لوگ جدید سہولتوں سے آراستہ پرائیویٹ کورئیر سروس کمپنیوں کی طرف رجوع کریں گے۔
آپ وفاقی وزیر مواصلات و پوسٹل سروسز ہیں۔ آپ کا تعلق سوات سے ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت میں آپ غیرمعمولی اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ وزیرا عظم عمران خان کے قریبی لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ اس لیے آپ سے سوات کے ایک مکین کی حیثیت سے درج ذیل مطالبات کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ اپنے علاقے کا قرض اتارتے ہوئے ان کی منظوری کے لیے فوری طور پر محکمانہ احکامات صادر کریں گے۔
٭ مینگورہ کے موجودہ پوسٹ آفس کو فوری طور پر جدید پوسٹل سہولتوں سے آراستہ کیا جائے۔ سٹاف کی کمی پوری کی جائے اور ملازمین کے مسائل حل کیے جائیں۔
٭ مینگورہ میں ایک پوسٹ آفس کافی نہیں۔ ایک پوسٹ آفس نشاط چوک میں کھولا جائے۔ ایک شاہدرہ وتکے میں اور ایک پوسٹ آفس نوے کلے میں کھولا جائے، تاکہ عوام کو پرائیویٹ پوسٹل سروسز کی ظالمانہ قیمتوں سے نجات مل سکے۔ نیز قابل اعتماد پارٹیوں کو پوسٹ آفس کی فرنچائز دے کر بھی یہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔
٭ مینگورہ کے پوسٹ آفس میں ارجنٹ میل سروس کی سہولت موجود نہیں۔ اس کے لیے سیدو شریف کے جی پی او جانا پڑتا ہے۔ اس سہولت کو مینگورہ کے پوسٹ آفس میں بھی فراہم کیا جائے۔
٭ مینگورہ پوسٹ آفس کی ڈاک بارہ ساڑھے بارہ بجے اٹھائی جاتی ہے، اس کے بعد جو کچھ پوسٹ کرنا ہوتا ہے، اسے اگلے دن کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مینگورہ کے پوسٹ آفس سے تمام پوسٹس کو اٹھانے کے لیے کم سے کم دو بجے کا وقت مقرر کرنا چاہیے۔
٭ مینگورہ کے علاوہ سوات بھر میں پوسٹ آفس کے جو دفاتر قائم ہیں، ان کے مسائل کو بھی حل کرنا چاہیے اور جہاں سٹاف کی کمی ہے، اسے پورا کرنا چاہیے۔
٭ آپ کو علم ہوگا کہ ترقی یافتہ ممالک میں پوسٹ آفس محض خطوط اور پارسل کی ترسیل کے لیے استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ یہ ایک مکمل بینک کی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں باقاعدہ طور پر اپنے کسی بھی بینک کے اکاؤنٹ کی رقم جمع بھی کرائی جاسکتی ہے اور رقم نکالی بھی جاسکتی ہے۔ پورے ملک کے ڈاک خانوں میں یہ سہولت ہونی چاہیے۔
٭ مَیں نے یو کے اور یورپ کے کئی ممالک میں خود دیکھا ہے، وہاں پوسٹ آفس کے ملازمین کی تن خواہیں اور سہولتیں دوسرے تمام محکموں سے اگر زیادہ نہیں، تو کم بھی نہیں ہوتیں اور یہ محکمہ ان ممالک کے لیے ایک کماؤ پوت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لیے آپ اپنے دورِ وزارت میں ”پاکستان پوسٹ“ میں انقلابی تبدیلیاں لاسکتے ہیں اور اس محکمہ کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرکے اسے نہ صرف عوام کے لیے فائدہ مند بناسکتے ہیں بلکہ اسے ملک کے لیے ایک نہایت نفع بخش محکمہ کی صورت میں بھی ڈھال سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے تو عوام کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں میں سے ابھی تک کوئی ایک وعدہ بھی بہ حسن و خوبی پورا نہیں کیا ہے، لیکن اگر آپ ایک نوجوان اور متحرک وفاقی وزیر کی حیثیت سے اپنے محکموں میں کوئی بہتر اور جدید تبدیلیاں لا سکیں، تو اس حوالے سے نہ صرف آپ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلکہ آپ اپنا سیاسی مستقبل بھی محفوظ بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔