نایاب ملک
طالبہ شعبہ بی ایس کمسٹری جہانزیب کالج سیدو شریف سوات
کرونا تیسری لہر نے ملک بھر میں ایک طرح کی ہنگامی صورتحال پیدا کردی ہے وفاقی اور صوبائی حکومت کی تمام ترع کوششوں کے باوجود اس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے نیشنل کمانڈ آپریشن سنٹرکے مطابق اس کرونا کمی کے لئے تام تر اقدامات کئے جارہے ہیں اور ایس او پیز پر عمل کے لئے سخت ہدایات جاری کئے تاکہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے اس کے کنٹرول موثر ہوسکے اور ہسپتالوں پر بوجھ کم کیا جاسکے چونکہ اس وقت صورتحال بہت زیادہ سنگینی کے طرف جارہے ہیں اور پڑوس ملک بھارت میں اکسیجن کمی کے باعث اموات کی شرح بہت زیادہ ہے ملک میں پازیٹیو کیسز اور اموات میں اضافہ قابل تشویش ہے پاکستان سے بیرون ملک جانے والے مسافر وں کو پروازوں کی بندش کے باعث مشکلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ یورپ اور خلیج ملکوں نے پروازوں پر پابندی وائرس پھیلاؤ کے روک تھام کے وجہ سے لگائی ہے ترقی پذیرملکوں میں علاج کے سہولتیں انفراسٹرکچر وغیرہ بہت مگر ہمارے ملک میں تو اس کی صورتحال سب کے سامنے ہیں اس لئے کسی بھی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا بہت مشکل ہے اور اس وباء پر کس طرح قابو پائیں گے جب ہنگامی حالات ہو کرونا صورتحال تویہ ہے کہ اس کے باعث پھیلنے والی دباؤ کا امریکا برطانیہ روس فرانس جرمنی جیسے ممالک نہ کرسکے تو پاکستان کے وسائل کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے اس ضمن میں اہم ترین مسئلہ ملکی معیشت کا بھی ہے پاکستان کو کرونا کے وجہ سے مکمل ڈیڈ لاک کے طرف جانا پڑتا ہے تو ہماری سکت ہی نہیں کہ اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے معاشی دباؤ کو برداشت کرسکیں معاشی بدحالی کے نتیجے میں ایک طرف قومی سطح پر مشکلات کا سامنا ہوگا تو دوسری جانب معاشرے میں بے یقینی اور بے چینی بلکہ کاقانونیت تک حالاے پیدا ہوسکتے ہیں یہ تو اللہ تعالی کا خاص فضل رہا کہ کرونا وائرس کی پہلی دوسری لہر کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی حکومتی سطح پر بروقت اقدامات کئے گئے عوامی حلقوں نے بھی ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کیا جس کے نتیجے میں اس عالمی وباء نے پاکستان کو زیادہ پریشان نہیں کیاکرونا کے پہلے دونوں مراحل میں پاکستان نے جس حکمت عملی کو اختیار کیااس کی عالمی دنیا میں ستائش بھی ہوئی ہونا تو یہی چاہئیے تھا کہ موثر اقدامات اور حکمت عملی کے تحت ملک میں کرونا کی تیسری لہر پیدا ہی نہ ہوتی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں نے ایک بار پھر بے احتیاطی کا رویہ اختیار کیاتعلیمی اداروں کاروباری وتجارتی مراکز تفریحی مقامات شادی کے تقریبات حتی کہ سرکاری سطح پر بھی کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزیاں سامنے آئیں نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے صدر وزیر اعظم وزراء اہم ترین سرکاری شخصیات بھی اس وائرس سے متاثر ہوگئیں اس سے بھی براحال عام آدمی کا ہوا کہ تیسری لہر سو میں سے ہر چوتھے شخص کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تشویشناک بات یہ ہے کہ کرونا کی تیسری لہر کے اثرات پہلی دونوں لہروں کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہیں بہت سے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نرسزاور دیگر طبی عملے کی بڑی تعداد اس وائرس کا شکار ہوئی ہے جس کے بعد عالج معالجے میں مشکلات بڑھ رہی ہے کرونا کی یہ لہر ماضی کے نسبت بچوں کو بھی متاثر کرلی ہے اور روزانہ کے بنیادپر اس متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس صورتحال کے پیش نظر وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنی حکمت عملی کے لئے اقدامات کا اعلان کیا ہے کرونا ایس او پیز کی پابندی کے لئے فوج کی خدمات بھی حاصل کی گئی لوگوں کو ماسک اور احتیاطی تدابیر کے لئے اور اس وباء پر قابوپانے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور اس طرح اس ضمن میں حوصلہ افزاء بات یہ کہ ویکسین کو قرار دیا جاسکتا ہے پاکستان میں حکومتی سطح پر ساٹھ اور پچاس سال سے زیادہ عمر کے شہریوں کو کرونا ویکسین کسی قیمت کے بغیر لگائی جارہی ہے اس مقصد کے لئے کرونا ویکسین سنٹرز میں بہترین انتظامات اور تمام تر سہولیات کے ساتھ ویکسین لگانے کا انتظام کیا گیا ہے اس کے ساتھ ذرائع وابلاغ کی مدد سے ملک میں کرونا کی تیسری لہر کے خطرناک اثرات بارے مہم چلانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس میں لوگوں کو یہ احساس دلائی جانی چاہئے کہ اس وائرس کو آسان راستہ دے کر اپنے اور اپنے پیاروں کی صحت اور زندگی کے لئے خطرات پیدا نہ کریں اسی طرح کرونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے سفر سے لے کر تجارتی مقامات اور بازاروں سے دکانوں پارکوں ہوٹلوں اور شادی تقریبات تک ایس او پیز کی پابندی کے لئے سخت قانونی اقدامات کئے جائیں کسی کو کسی بھی بنیادپر اپنی صحت اور دوسروں کی زندگی سے کھیلنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ہے لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ ماسک لگانے سینیی ٹائزر کے استعمال ہاتھ دھونے اور سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے پر کسی اضافی مشقت کی ضرورت ہے اور نہ بڑی سرمایہ کاری کی لیکن یہ ضرور ہے کہ پورے معاشرے کو کرونا جیسی مہلک وباء سے محفوظ رکھنے میں مدد دی جاسکتی ہے ضروری نہیں کہ لوگوں کی صحت اور زندگی کی حفاظت کی جائے بلکہ رضاکارانہ طورپر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرکے اپنی جان کے ساتھ سماجی معمولات کی بحالی اور ملکی معیشت کی بہتری میں مددگارکردار بھی ادا کیا جا سکتا ہے