ایڈوکیٹ نصیراللہ

کسی لاچار، غریب، ضرورت مند اور دردمند کے درد میں شریک ہونا بہ حیثیت انسان اور مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہوتا ہے۔ ایسے کسی بھی شخص کے ساتھ احسان کرنا احسان ہوتا ہے۔ لیکن بہ حیثیت مسلمان آپ اس کو احسان گردان سکتے ہے اور نہ احسان کرنے والے شخص سے شکریہ اور مہربانی کے متمنی ہوتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کی نیکی کرنا صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے کرنا ہوتا ہے۔ اس میں کسی بدل اور واپسی کا کوئی عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو مختلف قسم کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ اس کی وجوہات تو بہت ساری ہیں لیکن سردست ہم ان مسائل کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف اس بات کی ضرورت پر بات کریں گے کہ ان لوگوں کے ان جملہ مسائل کو کس طرح حل ہونا چاہیے۔ کیونکہ غربا اور مفلوک الحال انسانیت سخت سے سخت کرب میں مبتلا ہے۔ غریبوں کے ساتھ ساتھ مالدار لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مذہبی لحاظ سے ایک مسلمان کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ بلا کسی تفریق و امتیاز کسی بھی سائل اور ضرورت مند کی مدد کو فوراً پہنچتا ہے اور اس کی مطلوبہ ضرورت کے مطابق اس کی مدد اپنے حسب حال کر دیتا ہے۔ اس میں کسی تخصیص کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر ایک بندے کے پاس مال و دولت نہیں، گھر نہیں لیکن اس سے بھی اگر ایسا مطالبہ کیا جائے جو اس کی دسترس میں ہوتا ہے تو وہ پابند ہے کہ وہ اس انسان کی مدد کرے اور اس کی مطلوبہ ضرورت اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی مالدار یا غریب کسی کی مدد کر دیتا ہے تو خدا تعالی اس کا اجر دنیا اور آخرت میں اسے دے دیتا ہے۔ خدا تعالی کسی کا قرض اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔ اس لئے ضرورت مندوں کی بھرپور مدد کی جانی چاہیے۔ چاہے وہ ہمارے پڑوس میں ہے یا کہیں اور۔ جو ہمارے سامنے کسی چیز کے احتیاج کا تذکرہ کر رہا ہے اور وہ اس خاطر مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اس لئے بجا طور پر ان لوگوں کی خدمت مذہبی اور انسانی فریضہ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ جب تک ہم انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات پر بھی رحم نہیں کریں گے تو شاید قدرت بھی ہم پر رحم نہیں کرے گی۔ اس لئے زمین والوں پر رحم کرنا خود اپنے آپ پر رحم کرنے کے مماثل ہے۔ خود کو معاف کرکے دوسروں کو معافی دے دی جائے۔ خود کی مدد کریں اور دوسروں کی خدمت کریں۔ یہی بہترین انسان کا شیوہ ہوتا ہے۔ بہترین انداز میں اور شائستگی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ گفتگو کریں۔ ان کو سنیں۔ان کے درد اور تکالیف میں ان کے ساتھ شامل رہا جائے۔ اس سے اگر ایک طرف دوسرے کے مسائل میں کمی آئے گی تو دوسری طرف اپنے ضمیر کو بھی اعتماد ملنے لگتا ہے۔

ہمارے معاشرے کو محبت اور دردمندی کی ضرورت ہے۔ ہمیں کسی دشمنی اور نفرت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم کیوں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے رہ گئے؟ اس پر سوچنا چاہئے۔
اگر ہم اپنے طور پر جائزہ لیتے ہیں تو ہم سب اس ناکامی کے ذمہ داران ہیں۔ ہر کوئی اپنے طور پر سوچے اور عمل کرے تو شائد جملہ انسانی مسائل حل ہوسکے۔ یہ دنیا جنت نظیر بن جائے۔ اس لئے کہ ہم نے اپنے بھائی، پڑوسی، یتیموں یسیروں، مساکین، بیواؤں، مفلس اور غریبوں کا خیال نہیں کیا۔ ہم نے ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا۔ ہم نے ان پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا۔ ہم نے معاشرے میں ان کی قدر نہیں کی۔ ان کی عزت نفس کا خیال نہیں کیا۔ اور ہر وقت ان کے ساتھ ایک قسم کا ظلم کرتے رہے جس کی وجہ سے ہم ساری دنیا میں ذلت و محرومی اور رسوائی کی اتاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ ہمیں ہوش ہی نہ رہا کہ اگر ہم اپنے بھائی بندوں کا خیال کرتے تو شائد یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اسکے بجائے ہماری جی حضوری صرف غیروں کے لئے وقف رہی۔ اس وجہ سے ترقی کے میدان میں پیچھے رہ گئے۔ میں قطعی طور پر یہ نہیں کہنا چاہ رہا کہ ہمارے ملک اور ہمارے عوام دوسرے ممالک کے عوام کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی نہ کرے بلکہ یوں کہنا چاہ رہا ہوں کہ ان سب کے ساتھ ساتھ اپنی ترقی اور اپنی بھائی بندی میں غور و فکر کرنا چاہئے۔ہم کیوں خدا کی رحمت سے محروم ہوئے؟ اس پر سوچنا چاہئے۔ کیا ہم خیر خواہی کی جذبے سے عاری قوم تو نہیں بنے؟ہم کیوں غیروں کے محتاج ہوئے؟ کیوں ہم اخلاص کے ساتھ سچائی نہیں برتنے دیتے ہیں؟فقرااور مساکین کی عمومی ضروریات کا خیال کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے میدان کیوں نہیں فراہم کرتے؟ ان کے ساتھ دلی تعلق کیوں نہیں بناتے؟ ہم کیوں مجبور اور لاچار اور کسی سے کام لینے کی غرض سے نیکی کرتے ہیں؟ مادہ پرستی کے اس دور میں ہماری آنکھیں چندھیا گئی ہی۔
ہمیں اپنوں اور غیروں میں کوئی امتیاز نہیں دکھ رہا۔ بس پیسے کے پیچھے اپنا ایمان خراب کر بیٹھے ہیں۔ لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں اگر ہم نے اپنے معاشرے کو ٹھیک کرنا ہے تو ہمیں پہلے سائلین، مساکین، یتیموں، بیواؤں، گداگروں، محروموں، شی میل، مسافروں، طوائفوں اور نشیوں وغیرہ کا خیال رکھنا ہوگا۔اس کے بعد ہی کہیں ہمارے جملہ مسائل میں کمی آسکتی ہے۔ ہمیں ان مذکورہ لوگوں کو معاشرتی ترقی کی دوڑ میں شامل کرنا ہوگا۔ ان کے لئے مضبوط کاروباری رجحانات بنانا ہوں گے۔ ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ بس اس کے بعد خوشحالی، سکون ہمارا منتظر ہے