ملک گوہر اقبال خان رما خیل
ایک بڑے سے بڑا سائنس دان، فلسفہ اور منطق کا دقائق رس جب ایک چیونٹی کو دیکھتا ہے، تو حیران رہ جاتا ہے۔ اس کے حقیر و صغیر جسم میں، جس کے جسم کو جسم کہنا ہی ایک طرح کا مذاق ہے، قدرت نے چار جبڑے بنائے ہیں۔ اس کے شمہ برابر پیٹ میں انتڑیوں کا جال بھی موجود ہے۔ دم میں ایک چھوٹا سا ڈنک ہے پاس ہی زہر کی ایک تھیلی ہے۔ دونوں پہلوؤں میں سانس لینے کے دو سوراخ ہیں۔ ہوا ان سوراخوں سے داخل ہو کر بے شمار نالیوں میں چلی جاتی ہے۔ ان نالیوں کا جال چیونٹی کے جسم میں اس طرح پھیلا ہوا ہے جس طرح ایک پتے میں رگیں۔
عزیزانِ من، جب سے انسان پیدا ہوا ہے وہ نیچر اور قانونِ قدرت کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس نے سیکڑوں فلسفے ایجاد کیے، ہزاروں نظریے اور تھیوریاں قائم کیں، مگر یہ سب، کچھ دنوں بعد پانی کے نقش کی طرح مٹ گئیں۔ سائنس کی ترقی نے نہ صرف مشرق و مغرب بلکہ زمین وآسمان کے ڈانڈے ملا دیے ہیں، لیکن ان تمام ترقیوں کے باوجود نئی نئی ایجادیں جاری ہیں اور قانونِ قدرت کے نئے نئے راز کھل رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی انتہا کہاں ہوگی؟ بلکہ ہر سمجھ دار ماہر یہی کہتا ہے کہ جو کچھ سمجھا ہے، وہ کم ہے۔ ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ پس جب نیچر اور قانونِ قدرت کی یہ حالت ہے کہ ہر ایک عقل اس کے سامنے عاجز ہے، تو یقینا وہ خالق جس نے نیچر اور قانونِ قدرت بنایا، اس کی عقل کی انتہا ہے، اور نہ حکمت ودانش کی کوئی آخری سرحد۔ مگر جس طرح انسانی عقل آج نیچر کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے، ایسے ہی اس ذات کو سمجھنے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے سے بھی عاجز ہے، جو ہماری جان کی طرح ہمارے ساتھ ہے بلکہ جانِ جاناں ہے۔
جس طرح ہماری نگاہیں جان کے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح وہ جانِ جاناں کے دیدار سے بھی محروم اور عاجز ہیں۔ اس جانِ جاناں اور روح الارواح کا نام اللہ ہے، جو ہر ایک عیب سے پاک ہے، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، جس کے نہ کوئی مشابہ ہے، نہ کوئی اس کا شریک اور ساجھی۔ ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے اور وہ ہر ضرورت سے پاک۔ نہ اس کے بھائی بند ہیں نہ لڑکا لڑکی اور نہ ماں باپ، ساری مخلوق اس کی اور وہ ہر ایک کا ربِ خالق اور مالک ہے۔ یہ اللہ ہی تو ہے جس نے اس کائنات کا خاکہ تیار کیا۔ اس کے خالی خانوں میں رنگ بھرا، آب و گل کے لق و دق میدانوں اور بے رونق پودوں کو پُرتاثیر، پُرکیف، دلچسپ، دلکش اور ایسا حسین بنا دیا کہ مضمون نگاروں کے قلم ٹوٹ جاتے ہیں، شعرا کا پروازِ تخیل تھک جاتا ہے مگر اس حسنِ بے پناہ کی تعریف و توصیف نہیں کرسکتا جو چپہ چپہ سے عیاں ہے۔
عزیزانِ من، علمائے سائنس اور اربابِ بصیرت جگنو کی اس روشنی سے جو اس کی چھوٹی سی دم میں ہے، حیران ہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی روشنی حرارت سے خالی نہیں ہوتی، لیکن یہاں روشنی موجود ہے مگر حرارت کا نام ونشان نہیں۔
ڈاکٹرز جب تخلیقِ انسان پر غور کرتے ہیں، تو دم بخود رہ جاتے ہیں۔ سیکڑوں طاقتیں ہیں جو اس چھے سات فٹ جسم میں امانت رکھ دی گئی ہیں۔ آنکھ، ناک، کان، ان کی بناوٹ، ان میں طرح طرح کے پردے، ان پردوں پر عروق شعریہ کے ذریعہ مناسب قوتوں کا فیضان۔ پھر جو کچھ یہ حاصل کریں ان کو خزانہئ دماغ میں جمع کر دینا۔ دماغ کا ان سے موقعہ بہ موقعہ کام لینا قدرت کے وہ معجزے ہیں کہ انسان ہزاروں سال کے ذخیرہئ علم و دانش کے باوجود آج تک ان کو پوری طرح حل نہ کرسکا۔ وہ مغرور و متکبر ڈاکٹر اور ماہرینِ سائنس جن کو اپنے علم و ہنر پر ناز ہے، ہزاروں کوششوں کے باوجود آج تک یہ قدرت نہیں رکھتے کہ فطرت کی بنائی ہوئی کوئی چیز اگر بگڑ جائے، تو پھر اس کو ویسا ہی بنا دیں۔ بے شک علاج کرسکتے ہیں، مگر خلق نہیں کرسکتے۔ ہاں، خدائی حکم کے مطابق جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں یوں بیان ہوا ہے کہ ”یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی، پھر کیا تم بصیرت سے کام نہیں لیتے!“ اہلِ بصیرت نے جب انسانی جسم پر غور کیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ انسان کا جسم ایک پورا شہر ہے جس میں معدہ ایک ”باورچی“ ہے، جو غذا پکا رہا ہے۔ کوئی عطار ہے جو غذا کا عطر اور جوہر کشید کر کے جزو بدن بنارہا ہے۔ جگر ایک طبیب ہے جو غذا میں تیزاب ملا رہا ہے۔ انتڑیاں، پھیپڑے اور گردے جاروب کش ہیں جو غلاظت باہر پھینک رہے ہیں۔ کوئی شعبدہ باز یا بہت بڑا کاریگر یا کوئی مِل کارفرما ہے جو خون کو گوشت میں تبدیل کررہا ہے۔ ایک بھٹا لگا ہوا ہے جس میں خون اور گوشت کا ”گارا“ پک کر ہڈی بن رہا ہے۔ کوئی بنکر ہے جو جھلی بن رہا ہے۔ پٹھوں کی پٹیاں گوندھ رہا ہے۔ کوئی بخیہ گر ہے جو خراش کی پھٹن سی رہا ہے۔ کوئی کاشتکار تخم ریزی کررہا ہے جس سے جسم کی کیاری میں جگہ جگہ بال اُگ رہے ہیں۔ کوئی رنگ ساز ہے جو دانتوں کو سفید، بالوں کو سیاہ، خون کو سرخ اور پٹھوں کو زرد بنا رہا ہے۔ ایک بت تراش ہے جو رحمِ مادر میں خوبصورت سی مورتی تراش رہا ہے۔ پھر کہیں سمندر ہے جس میں پانی بھرا ہوا ہے۔ کہیں رگوں میں نہریں اور ندیاں بہ رہی ہیں۔ آبشاروں سے خون کے فوارے اُمنڈ رہے ہیں۔ ہڈیوں کے پہاڑ جگہ جگہ ہیں جن میں مغز استخواں کی جوہری کانیں پوری امانت داری سے مخفی کردی گئی ہیں۔ جسم کی زمین پر ہر جگہ روئی کے کھیت اور بادلوں کے جنگل لگے ہوئے ہیں۔ سانس کے ساتھ ہوا کے جھونکے آتے ہیں، کبھی صبا کی طرح گزر جاتے ہیں اور کبھی طوفان بن کر جسم کی پوری کائنات اتھل پتھل کر ڈالتے ہیں۔ عقل کا آفتاب روشن ہے۔ حواسِ خمسہ کے ستارے چمک رہے ہیں۔ آفتاب کی کرنیں غم و اندوہ کی نم ناکیوں سے مون سون اٹھاتی ہیں، اور آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش برسنے لگتی ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ظلمتِ غم کا پردہ چاک ہوتا ہے اور لبِ نازک کے تبسم سے سپیدۂ صبح نمودار ہونے لگتا ہے۔
بہرحال جس طرف بھی نظر ڈالو عجائباتِ قدرت کا میلہ لگا ہوا ہے۔
عزیزانِ من، ہم اپنی پوری عقل و دانش اور سائنس کی تمام عجائب کاریاں صرف کرکے چیونٹی جیسی حقیر چیز کا حیرت انگیز جسم نہیں بناسکتے۔ اس کی حقیر ٹانگ اور اس سے بھی حقیر اس کی کسی ایک ہڈی کی تخلیق نہیں کرسکتے۔ یہاں ہماری تمام عقل و دانش، تمام مہارت و حذاقت عاجز ہے، درماندہ ہے۔
لیکن سب سے زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ ان عجیب و غریب کرشمہ کاریوں سے خالق کا پتا نہ لگایا جائے، اور یہ کہہ کر قصہ ختم کردیا جائے کہ ”کارخانہئ قدرت یوں ہی چل رہا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجائبات قدرت کا میلہ
