روح الامین نایابؔ
مشہور کالم نگار، قلم قبیلے کے تعلق سے میرے آشنا اور میرے ذاتی مشفق دوست تصدیق اقبال بابو صاحب ایک بار موبائل فون پر یوں گویا ہوئے کہ ”فتح پور کے ایک حضرت نے اُردو شاعری میں طبع آزمائی کی ہے اور اب وہ اپنی بیاض کو کتابی شکل دینا چاہتے ہیں۔ سب کچھ تیار ہے، مَیں چاہتا ہوں کہ کتاب کے فلیپ کے لیے آپ مختصر کچھ لکھ دیں۔“
مَیں بھلا بابو صاحب کا حکم کیسے ٹال سکتا تھا! وہ کتاب کا پورا مسودہ لانے کا ارادہ کررہے تھے، لیکن مَیں نے چند اشعار وٹس ایپ پر ارسال کرنے کی درخواست کی۔ چند اشعار بھیج دیے گئے۔ اُن اشعار نے مجھے انگشتِ بدنداں کر دیا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسی پختہ اور رنگ آمیز شاعری فتح پور کے ایک ”خان“ جناب ہارون الرشید ہارون نے کی ہوگی، جو آس پاس کے علاقے میں ”خان سڑے“ کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ مَیں نے حسبِ منشا چند جملے اپنی قلمی بساط کے مطابق بھیج دیے۔ کتاب چھپ کر آگئی ہے۔ مَیں ہارون صاحب کو کتاب کے شائع ہونے پر دلی مبارک باد دیتا ہوں اور مجھ ناچیز کو ”ہدیہ“ کرنے پر شکر گزار ہوں۔
تقریباً 128 صفحات پر مزین ایک خوبصورت شعری مجموعہ سوات کی اردو شاعری میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ضلع سوات میں اردو شاعری کے حوالے سے چند گنے چنے شاعر حضرات ہیں جو اُردو شاعری میں برابر طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ اُن میں تین یا چار حضرات صاحبِ کتا ب ہیں، باقی ابھی پردے کے پیچھے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر سوات میں اُردو ادبی سلسلہ کسی نام سے چل نکلا، تو یہ شاعر دوست/ نثر نگار ضرور منظر عام پر آجائیں گے۔ اس ناچیز کی اردو شاعری کی کتاب ”زندانِ زیست“ کے علاوہ محمد عادل تنہا کی ”سب کچھ تمہارے نام“ منظر عام پر آچکی ہے۔ عادل تنہاؔ ایک اچھے شاعر ہیں۔ اُس کے مزید قلمی شاہکار آنے کو ہیں۔ اس حوالے سے ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جہانزیب کالج کے طلبہ میں بھی اُردو شاعری پروان چڑھ رہی ہے۔ چند ایک تو کمال کی شاعری کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا سامنے آنا ضروری ہے کہ معاشرے میں اُردو شاعری کے حوالے سے اپنی پہچان کرائیں۔ پختونخوا میں اُردو شاعری اور اُردو ادب کی پہچان کے حوالے سے یہاں مردان کی اہم شخصیت پروفیسر گوہر نوید نویدؔ کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا، جنہوں نے پورے پختونخوا میں اُردو ادب اور اُردو شاعری کے قلم کاروں کا ذکر اپنی ایک حالیہ کتاب میں کیا ہے، جس میں شاعروں اور ادیبوں کا مختصر تعارف اور کلام کے نمونے دیے گئے ہیں۔ اُس کی یہ تحقیقی قلمی کاوش مبارک باد کی مستحق ہے۔ بہ قول اُس کے وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے اُردو لکھاری سامنے آتے رہتے ہیں۔ سوات میں ایک وسیع اردو ادبی انجمن کی ضرورت ہے۔ بیٹھکوں، تنقیدی نشستوں اور مشاعروں کی ضرورت ہے، تاکہ ایک دوسرے سے جان پہچان ہو، اور یہاں اردو ادبی کاروان آگے بڑھا جائے۔
یہاں اگر سوات کے مشہور پبلشر شعیب سنز کے فضل ربی راہیؔ کا ذکر نہ کیا جائے، تو زیادتی ہوگی۔ وہ اُردو اور پشتو کی بے شمار کتب کے پبلشر اور شائع کرنے کے علاوہ اُردو نثر کی کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں۔ بہرحال مختصر طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سوات کی زر خیز مٹی اُردو ادب کے حوالے سے کبھی تشنہ نہ رہی۔
سوات میں اردو شاعری کے درجنوں صاحبِ کتاب شاعر ہیں لیکن کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے، لہٰذا سب کا ذکر ممکن نہیں۔ البتہ ”ایک جانب چاندنی“ کے احمد فواد صاحب اس میں سر فہرست ہیں۔ وہ اردو شاعری میں ملکی سطح پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
ہارون صاحب کے شعری مجموعے سے شروع ہونے والی بات کہاں تک جاپہنچی۔ ہارون صاحب نے رومانوی شاعری کو غزلیات میں نگینہ کی طرح پرو دیا ہے۔ اس بارے میں تصدیق اقبال بابو صاحب کتاب پر اپنے بسیط دیباچے میں یوں رقم طراز ہیں: ”ہارون جی کی شاعری میں گو کہ داخلیت کے علاوہ خارجیت کے موضوعات بہت کم ہیں، لیکن رومان بھری شاعری میں رنگ تغزل کے پورے پورے ڈانڈے موجود دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں اوزان، لفظی در وبست اور بحور کا بھی بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔“
یاد رہے کہ بابو صاحب نے اس کتاب کی پروف ریڈنگ بھی کی ہے۔ اس لیے املا کی درستی سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ”درِ یار پہ دستک“ میں جہاں وصلِ یار کی رنگینیاں ہیں، وہاں ہجر و جدائی کی آہ و فغاں بھی ہے۔ ذرا یہ اشعار ملاحظہ کریں کہ ہارون صاحب کیا فرماتے ہیں:
میں آرزو میں بن کے کھلونا ہی رہ گیا
آخر وہ تھا پرایا، پرایا ہی رہ گیا
ہنستا تھا،مسکراتا تھا، اکثر خوشی کے ساتھ
اب دل مصیبتوں کا ٹھکانا ہی رہ گیا
وہ تو چلا گیا ہے، اکیلے میں چھوڑ کر
پر دردِ دل میں ویسے کا ویسا ہی رہ گیا
ہمارے دوست اور پی ایچ ڈی سکالر احسان یوسف زئی صاحب اپنے فلیپ میں ہارون صاحب کی شاعری کے بارے میں یوں فرماتے ہیں: ”سادگی، بے ساختگی، لطافت، موسیقیت، غنائیت اور تغزل اُن کی شاعری کا خاصا ہے۔ فکری اعتبار سے بھی ہارون صاحب کی شاعری میں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے، لیکن جن جذبوں کو ہارون صاحب نے اپنی شاعری کو روانی سے برتا ہے، وہ رومانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رومانیت کی جتنی بھی خصوصیات ہیں، موصوف کی شاعری میں بڑی حد تک دکھائی دیتی ہیں۔“
”درِ یار پہ دستک“ مجلد ہے اور جاذبِ نظر سرورق ہے۔ کتاب پر قیمت 300 روپے درج ہے، لیکن ہارون صاحب ادبی ذوق و شوق کے قائل ہیں۔ اُس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم کیا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ادبی فن پارے کو دولت کی ترازو میں تولنا نہیں چاہتے، جو بھی کتاب دوست اور قلم کا قدردان مہربان ملتا ہے، اُسے مفت دے دیتے ہیں۔ اس لیے تو جہانزیب کالج کے شعبہئ پشتو کے چیئرمین پروفیسر عطاء الرحمان عطا صاحب، ہارون صاحب کی شاعری کو قابلِ ستائش قرار دیتے ہیں کہ ہارون صاحب نے اپنی بے حد مصروف زندگی میں شعر و ادب سے اپنا رشتہ عملاً قائم رکھا ہوا ہے۔ عطا صاحب امید کرتے ہیں کہ ”ہارون صاحب کی شاعری سوات میں اردو کی منجمد ادبی فضا میں تحریک کا سبب بنے گی۔“
تصدیق اقبال بابو، لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد خان اور اقبال کیفی کے ادبی اور معلوماتی دیباچوں نے کتاب کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیے ہیں اور کتاب کی اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔
اللہ کرے کہ ہارون صاحب کا زورِ قلم اور زیادہ ہو اور سرزمینِ سوات کواپنے شعروں کی مہک سے معطر کرتا رہے، آمین!
جاتے جاتے ہارون صاحب کا ایک شعر ملاحظہ ہو اور اس کے ساتھ ہی اجازت چاہوں گا:
تیری جھیل سی وہ آنکھیں تیرا پھول سا وہ چہرہ
تیری یاد پیاری پیاری میرے پاس رہ گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درِ یار پر دستک (تبصرہ)
