فضل محمود روخان

میں نے کبھی غور سے اُس جگہ کا گہری نظر سے جائزہ نہیں لیا تھا۔ جہاں میں اپنے دوست کی قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر دعائیہ انداز میں اللہ میاں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اس کی مغفرت کے لیے دعا مانگا کرتا تھا۔ میرا یہ متوفی دوست اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں میرا ساتھی بنا تھا۔ تقریباً ہر صبح اُٹھ کر میرے پاس آنے کا معمول تھا۔ چند ساعتوں کے لیے وہ میرے ساتھ بیٹھ جاتا۔ چائے پیتا اور کاٹتی ہوئی سردی میں دھوپ سینک لیتا۔ جب دھوپ سینکنے سے اس کی جان میں جان آتی،تو پھر یہ کہہ کر واپسی کی اجازت طلب کرتا کہ ”اچھا دوست، اب میں جاتا ہوں۔“
وہ ہر روز آتا۔ ہر دفعہ میرا رویہ اس کے ساتھ دوستانہ ہوتا، اور میں مکمل طور پر اس کو توجہ دے دیتا۔ اُسے لکھنے کا شوق تھا۔ تعلیم اس کی واجبی تھی۔ ہاں، اسے کسی حد تک معلومات تک رسائی تھی اور بولنے کا وصف اللہ میاں نے اسے ودیعت کیا ہوا تھا۔ میری اس کے ساتھ جان پہچان کیسے بنی اور بات علیک سلیک تک کیسی پہنچی؟
مَیں اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رحیم اللہ باباجیؒ کی ملاقات کے لیے ہر جمعہ کے روز جایا کرتا تھا۔ وہاں پر باباجیؒ کی وجہ سے لوگ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔سب مجھے اچھی نظروں سے دیکھتے اور اپنائیت کا احساس دلاتے تھے۔ جمعہ پڑھنے کے بعد میں باباجیؒ کے پاس ایک گھنٹے تک بیٹھتا رہتا، اور اُن سے فیض حاصل کرتا۔ بعد میں جب اُن کے فیوض و برکات کی محفل برخاست ہوتی، تو مَیں اُن سے رخصت لے لیتا۔ باباجیؒ مجھے ایک ہی قسم کی دعا دیتے: ”اللہ آپ کو کامیاب کرے۔“
باباجیؒ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہیل چیئر پر نماز پڑھنے مسجد جاتے، اور پھر نماز پڑھنے کے بعد اُسی وہیل چیئر میں گھر لوٹتے، لیکن ہم اُن کے دیدار اور دعاؤں سے مستفید ہوجاتے۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد ایک آدمی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی جانب متوجہ کیا کہ”خان نے مجھے کہا ہے کہ روخان کو میرے ہاں لے آؤ!“
مَیں اس کے ساتھ عبدالرحیم صاحب (سوات ٹریڈرز فیڈریشن) کے گھر گیا۔ عبدالرحیم صاحب کو لوگ پیار اور عقیدت سے ”خان“ کہتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک گھنٹا جو میں باباجیؒ کے حضور گزارتا تھا، وہ عبدالرحیم صاحب کی نذر ہوگیا۔
عبدالرحیم صاحب سے میرا تعلق 1980ء سے چلا آرہا تھا، لیکن میں کبھی اُن کے ہاں نہیں گیا تھا۔ عبدالرحیم صاحب نے مجھے بڑی چاہت اور پیار سے کہا کہ روخان صاحب، آپ کا یہاں آنا ہمارے لیے باعثِ خوشی ہوگا۔ پھر ہر جمعہ کو نماز پڑھنے کے بعد میں اُن کے آدمی(جسے انہوں نے اس ڈیوٹی پر مختص لگا کر رکھا تھا) کے ساتھ خان کے دیرے پر جاتا۔ خان ایک ملنسار اور نہایت فعال سوشل ورکر ہیں۔ ہر کسی کے کام آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی اللہ کی مخلوق کے لیے وقف کررکھی ہے۔ وہ سب کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ ملنگ آدمی ہیں۔ کھانے کے وقت مجلس میں حاضر سب اُن کے ساتھ کھانے کے دسترخوان پر اکھٹے بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے ہیں۔ حاضرینِ محفل میں ہر کسی کو توجہ دینا، اُن کے مسائل توجہ سے سننا اور اُن کو حل کرنے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا اُن کا فن ہے۔
عبدالرحیم صاحب بھی حضرت مولانا رحیم اللہ باباجیؒ کے ہمسایوں میں شامل ہیں۔ ان کی زندگی کے آخری مہینوں میں یہ باباجیؒ کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ پھر 10اکتوبر 2010ء کو حضرت مولانا رحیم اللہ باباجیؒ اللہ کو پیارے ہوگئے۔
تو ہاں، میں اپنے متوفی دوست کی قبر پر دعا کی بات کررہا تھا۔ ہوا یوں بلکہ یہ میری زندگی میں پہلی دفعہ ہوا کہ جب میں اُن کی قبرپر پہنچا اور دعا کے لیے آگے بڑھنے لگا،تو قبرستان میں میرے داخلے کے لیے رستہ نہیں تھا، بلکہ میں اُن کی قبر کی جگہ بھی بھول گیا تھا۔ میرے لیے دوسری قبروں میں اُس کی پہچان مشکل ہو رہی تھی۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ، درخت ہی درخت نظر آرہے تھے۔ سبزے، بیل بوٹے روشنی سے منور تھے۔ سبزہ، درخت، بیل بوٹوں پر شبنم ایسی نظر آرہی تھی کہ گویا ابھی یہ بارش کے پانی سے نہائے ہوئے ہیں۔ وہاں سورج کی روشنی نہیں تھی بلکہ ہر جگہ سے نور پھیلا ہوا تھا۔ مَیں کھڑے کھڑے یہ نظارہ دیکھتا رہا، اور میرے لیے یہ کسی بھی لحاظ سے دنیاوی نظارے کی مانند نہیں تھا۔ ایک ایسا ”نظارہ“ جو میرے بیاں و تحریر میں آہی نہیں سکتا۔
مَیں لوٹ آیا کہ وہاں میرا داخلہ اُس وقت ناممکن تھا۔