فضل منان بازدا
حکومت خواہ کوئی بھی ہو، یا کسی کی بھی ہو ہمارا بنیادی مسئلہ بہترحکمرانی کا ہے۔ تاریخی اوارق پلٹ کر دیکھ لیں، تو آپ کوحکمرانی کی اچھی اور بری دونوں مثالیں ملیں گی۔ ایسی مثالیں بھی جہاں طوائف الملوکی کے باعث انتظامی ڈھانچے کے اونٹ کی طرح کوئی کل سیدھی نظر نہیں آئے گی۔ اندھیرا نگری چوپٹ راج والی کہاوت اسی بدامنی کی پیدا وار ہے۔ اچھی حکمرانی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ حکمران بہت پڑھا لکھا ہو، بڑا دانشور ہو یا اُس کا دورِ حکمرانی طویل ہو۔ دنیا میں اچھی حکمرانی کی مثالیں تو ڈھیر ساری ہیں لیکن دور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہندوستان میں بہت اچھے اچھے حکمران گزرے ہیں۔ ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے پٹھان حکمران شیر شاہ سوری کا دور ِ حکومت پانچ سال سے بھی کم عرصے پر محیط تھا، لیکن اتنے کم دور ِ حکومت میں شیر شاہ نے وہ کارنامے سر انجام دیے کہ رہتی دنیا تک لوگ یاد رکھیں گے۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ شیر شاہ سوری عالم و فاصل نہیں تھے، لیکن اُس کے اعلیٰ حکمرانی کی روشن مثال ہم نے آج بھی سینے سے لگائے رکھی ہے۔ اُس کے دور ِ حکومت میں امن و امان، جان و مال کے تحفظ اور انتظامی ڈھانچے کا یہ حال تھا کہ سونے کے زیورات سے لدی کوئی بھی عورت تنِ تنہا تاریک رات میں بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی مرضی سے کہیں بھی آ جا سکتی تھی، اور کسی کو اتنی جرأت نہ تھی کہ اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ تعمیراتی کام بھی شیر شاہ سوری کے دورِ اقتدار میں ڈھیر سارے ہوئے۔ تعمیراتی کام میں نئی بستیوں اور فوجی قلعوں کی تعمیر کے علاوہ دہلی سے کابل تک بڑی شاہراہ (سڑک) قابلِ ذکر ہیں۔ اسی سڑک پر سایہ دار درخت لگانے کے ساتھ کچھ فاصلے پر مسافروں کے آرام اور رات گزارنے کے لیے سرائے تعمیر کی گئی تھیں۔ آمد و رفت کو محفوظ بنانے کے لیے سرکاری چوکیاں قائم کی گئی تھیں اور بر وقت خبر رسانی کے لیے گھوڑوں اور ہرکاروں کاانتظام کیا گیا تھا۔
پاکستان میں تو اب اچھی حکمرانی کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ عوام اب یہ امید رکھنا ہی چھوڑ چکے ہیں کہ پاکستان میں انہیں کبھی اچھی حکمرانی بھی دیکھنے کو ملے گی۔ ملک کے تمام صوبوں میں خیبر پختونخوا وہ بد قسمت خطہ ہے کہ تاریخی معلومات کے مطابق اکثر بیرونی جارحیت، اندرونی سازشوں، حکمرانوں کی احمقانہ ترجیحات کے باعث جنگ و جدل اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ یہاں تعمیری قوتوں کے بجائے تخریبی والی قوتیں ہی اکثر کامیاب رہی ہیں۔ یہاں انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہر دور کے حکمرانوں نے ذاتی مفادات کے حصول، ذاتی پسند و ناپسند اور ذاتی انا کی تسکین کو پورا کرنے کی خاطر ملکی مفادات کو داؤ پر لگانے سے دریغ نہیں کیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے ہر دور کے وزیر اعلیٰ نے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی میں من پسند ایم پی ایز کو خوب نوزا ہے۔ ناپسند ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈز روکے رکھے ہیں۔ جی حضوری کرنے والے ایم پی ایزکے ایما پر ان کے نامزد افراد کو بھرتی کیا گیا ہے اور ان کی سفارشوں پر لوگوں کے تبادلے کیے گئے ہیں۔ برسرِ اقتدار وزیر اعلیٰ نے اپنے اپنے علاقوں میں بے حساب ترقیاتی فنڈز خرچ کیے ہیں جب کہ دوسرے علاقوں کو نظر انداز کیا ہے۔
قارئین، خیبر پختونخوا کے موجود ہ وزیر اعلیٰ محمود خان بھی ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جو پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے محمود خان اور بعض ایم پی ایز کے درمیان غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی، یا پھر پیدا کرائی گئی تھی جس پر ناراض ہو کر وزیر اعلیٰ محمود خان نے وزیر اعظم عمران خان سے ایک ملاقات میں ان ایم پی ایز کے خلاف شکایت کرتے ہوئے وزارت سے فارغ کرنے کی اجازت بھی چاہی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے محمود خان کو مذکورہ افراد کو وزارت سے فارغ کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔ وزیر اعلیٰ محمود خان نے اجازت ملنے پر ایم پی اے شہرام ترکئی، عاطف خان اور ایم پی اے شکیل احمد ایڈوکیٹ کو ان کی وزارتوں سے فارغ کر دیا تھا۔ محمود خان کی ناراضی یا غلط فہمی کی وجہ تو ہمیں معلوم نہیں، لیکن انہوں نے اپنی انا کی تسکین کے لیے اقدام کرتے ہوئے تینوں ایم پی ایز کو وزارت سے نکال باہر کیا۔
قارئین، حکومتوں اور پارٹیوں میں ایسی رقابتیں چلتی رہتی ہیں، لیکن اپنی دشمنی کو نبھانے، ناپسند ایم پی اے کو دکھ دینے اورذاتی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے علاقے کے ترقیاتی فنڈز کو روکنا کہاں کی عقلمندی او رکہاں کا انصاف ہے؟ ایم پی اے شکیل احمد ایڈوکیٹ کے ساتھ ذاتی دشمنی کی خاطر وزیر اعلیٰ محمود خان نے ملاکنڈ کے ترقیاتی فنڈز روک کر حلقے میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو نقصان پہنچانے کا خدشہ پیدا کیا ہے۔ ترقیاتی فنڈز روکنے سے ملاکنڈ جیسے پسماندہ علاقہ پسماندگی کی اتھاہ گہرایوں میں گر جائے گا۔ وزیر اعلیٰ محمود خان کے ان اقدامات کے نتیجے میں تحریکِ انصاف آنے والے قومی الیکشن میں ملاکنڈ میں ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہوسکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ محمود خان اپنے ایم پی اے شکیل احمد ایڈوکیٹ سے دشمنی نبھانا چاہتے ہیں، تو ضرور نبھائیں، لیکن ملاکنڈ کے ترقیاتی فنڈز نہ روکیں۔ اگر محمود خان، ایم پی اے شکیل کے ہاتھوں ترقیاتی کام کروانا نہیں چاہتے، تو بے شک نہ کرائیں، لیکن ملاکنڈ میں ترقیاتی کام ڈپٹی کمشنر یا عوامی نمائندے ایم این اے جنید اکبر کے توسط سے بھی تو کرواسکتے ہیں، ان سے کروائیں۔ عقلمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ حکومت علاقے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرکے حکومتی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کرے، تاکہ آنے والے قومی الیکشن میں پارٹی سرخ رو ہو، نہیں تو کف افسوس ملنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں