پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے صوبائی مالیاتی ایوارڈجاری کردیاجس کے تحت وسائل کی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کے فارمولے کے تحت صوبے کے 60 فی صد وسائل اضلاع کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت نے جاری مالی سال 21-2020 کے لیے صوبائی مالیاتی ایوارڈ جاری کردیا ہے جس کے تحت اضلاع کے مابین وسائل کی تقسیم کے لیے آبادی ہی بنیادی عنصر قراردیاگیا ہے اور 60 فیصد وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہونگے جبکہ 20 فیصد وسائل غربت اور20 فیصد پسماندگی اور انفراسٹرکچر کی کمی کی بنیاد پر تقسیم کیے جائیں گے۔ جب کہ صوبہ کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کا30  فیصدحصہ نچلی سطح پر اضلاع کو دیا جائے گا۔

صوبائی مالیاتی کمیشن کے چیئرمین صوبائی وزیر خزانہ ہونگے جبکہ اس کے دیگر ارکان میں  وزیر بلدیات ،حکومت کی جانب سے وزیراعلیٰ کے نامزد رکن اسمبلی ارشد ایوب خان ،اپوزیشن کی جانب سے قائد حزب اختلاف کے نامزد رکن اسمبلی محموداحمدخان بھٹنی،سیکرٹری خزانہ ،پی اینڈڈی ،بلدیات ،قانون ،ناظم ڈسٹرکٹ کونسل ڈی آئی خان ،ناطم ڈسٹرکٹ کونسل شانگلہ ،ناظم تحصیل کونسل غازی ہری پور اور ناظم تحصیل کونسل سرائے نورنگ لکی مروت شامل ہیں۔

اضلاع اورصوبہ کے مابین وسائل کی تقسیم کے لیے جو مالی وسائل بروئے کار لائے گئے ہیں ان میں مرکزی قابل تقسیم پول سے حاصل ہونے والی آمدنی ،دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے وفاقی قابل تقسیم پول سے ملنے والی ایک فیصد رقم ،براہ راست منتقلی ہونے والی رقم ،صوبہ کی اپنی ٹیکس ودیگر آمدنی، بجلی کے خالص منافع سے حاصل رقم اور بجلی منافع کے بقایاجات کی مد میں ملنے والی رقم شامل ہے۔

صوبائی مالیاتی پول سے قرضوں، پنشن، گندم پر سبسڈی،جی پی اور پنشن فنڈ میں فراہمی، ہائیڈل ڈیویلپمنٹ فنڈ، گورنر ہاؤس وسیکرٹریٹ،صوبائی اسمبلی، ہائی کورٹ اور احتساب کمیشن کے لازمی اخراجات اور امن وامان کے سلسلے میں  درکار وسائل مہیا کیے گئے ہیں جس کے بعد ہی وسائل کی تقسیم عمل میں لائی گئی ہے جس کے تحت صوبہ اور اضلاع کے مابین 40-60 کی شرح سے وسائل تقسیم کیے گئے ہیں جس کے تحت اضلاع کو تنخواہوں  اور دیگر اخراجات ،ترقیاتی امور اور لوکل کونسلز کی گرانٹ کے طور پر مالی وسائل کی فراہمی کی جائے گی۔

صوبائی مالیاتی کمیشن کے تحت اضلاع کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 150 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے جن میں  گزشتہ مالی سال کی تنخواہوں کے اعدادوشمار کے مطابق 144 ارب جبکہ 6 ارب روپے اضافی بھی دیئے جارہے ہیں تاکہ خالی آسامیوں کو پر کرنے کی صورت میں  اضافی درکاروسائل کو پورا کیا جاسکے۔ دیگر اخراجات کے لیے اس سال اضلاع کو 17 ارب80 کروڑ روپے فراہم کیے جائیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران اس مد میں 18.2 ارب روپے ادا کیے گئے تھے.

مذکورہ ادائیگی تعلیم وصحت کے لیے درکار اخراجات کے علاوہ دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ادا کیے جارہے ہیں جن میں ایمرجنسی بنیادوں پر نچلی سطح پر اسپتالوں کے لیے ادویات کی خریداری ،بجلی بلوں  ،شہداء پیکج ومالی امداد،تعلیمی شعبہ کو خود مختاری، اسکولوں میں بچوں کی تعداد کو بڑھانے، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق آلات کی خریداری، نئے دفاتر کے لیے فرنیچر کی خریداری، بہترین اسکولوں اوران کے اساتذہ کو انعامات کی فراہمی اور پختونخوا پروگرام کے تحت ہر تعلیمی بورڈ میں ہائی اور ہائیر سیکنڈری سطح کے 30 بہترین طلبہ کو وظائف کی ادائیگی کے اخراجات شامل ہیں۔

لوکل کونسلز کو گرانٹ کی شکل میں 6 ارب27 کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے جن میں ٹی ایم ایز کو گزشتہ سال کی طرز پر3.1 ارب روپے محصول چونگی کی مد میں ملیں گے، ایک ارب روپے مالی طور پر غیر مستحکم ٹی ایم ایز کے لیے فراہم کیے جارہے ہیں اور19 کروڑ روپے ان کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے ہیں جن کا قریبی ٹی ایم ایز کے ساتھ مالی امور کے سلسلے میں معاہدے ہیں۔

صوبائی مالیاتی ایوارڈ میں صوبہ کے ضم قبائلی اضلاع کے لیے تنخواہوں  کی مد میں 25 ارب60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں  جبکہ دیگر اخراجات کے لیے6 ارب40 کروڑ روپے فراہم کیے جارہے ہیں۔

صوبائی مالیاتی کمیشن کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ کوئی بھی ضلع ،تحصیل یا ویلیج اورنیبرہڈ کونسل بجلی یادیگر واجبات کی ادائیگی میں اگر ناکام رہے گا تو اس صورت میں صوبائی محکمہ خزانہ اپنے طور پر ان کے حصے کے وسائل میں  سے مذکورہ رقم منہا کرتے ہوئے یہ رقم واپڈا یا متعلقہ اداروں  کو ادا کرے گا۔ مجموعی قابل تقسیم صوبائی پول کا مجموعی حجم673 ارب روپے ہے جن میں  سے171 ارب 83 کروڑ روپے لازمی اخراجات کے لیے رکھے گئے ہیں۔

صوبہ قابل تقسیم کا جو60 فیصدحصہ اضلاع کے مابین تقسیم کرے گا ان کا حجم300 ارب71 کروڑ روپے ہے جبکہ وہ40 فیصدحصہ جو صوبہ اپنے پاس رکھے گا اس کا حجم200 ارب47 کروڑ روپے ہے ،صوبہ کے بندوبستی اضلاع کو مجموعی طورپر218 ارب64 کروڑ روپے فراہم کیے جائیں  گے جبکہ صوبہ کے قبائلی اضلاع کو مجموعی طور پر43 ارب روپے ملیں  گے ۔صوبائی مالیاتی کمیشن نے صوبہ میں  ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے ایک ارب روپے کا ضلعی ترقیاتی فنڈقائم کرنے کی بھی منظوری دی ہے ۔