ایچ ایم کالامی
اپنی بات کو آگے بڑھانے سے قبل ایک عرض کرنا چاہوں گا کہ نام نہاد قومی و علاقائی غیرت کے لبادے میں منطق اور زمینی حقائق سے مبرا حلقہئ احبابِ تحریر یہی پر رد کردیجیے اور پڑھنے کی زحمت نہ کیجیے۔ راقم نہیں چاہتا کہ کڑوے حقائق آپ کے ذہنی خلجان کا باعث بنیں اور مجھے آپ سے الجھنے کا موقع ملے۔
قارئین! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ من حیث القوم ہمیں ایک نام نہاد قومی و علاقائی غیرت کی ایسی آہنی زنجیروں میں جکڑا گیا ہے کہ ہم زمینی حقائق اور منطقی سوچ کے دھارے سے کوسوں دور رہ رہے ہیں۔ یہ نام و نہاد غیرت ملکی سطح سے لے کر علاقائی اور نچلے درجے تک خاندان کے جڑوں تک سرایت کرچکی ہے۔
اس پہلے بات آئی گئی ہوجائے، آتے ہیں اپنے اصل مدعا کی طرف۔ آپ خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہماری خوبصورت وادیِ سوات کس طرح پے درپے آفتوں کی زد میں ہے۔ لیکن کبھی ہم نے اپنی سوچ کو ریوائنڈ کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی کہ آیا ہم نے کہیں نہ کہیں کچھ فیصلے جذبات میں غرقاب ہوکر کیے ہوں، جن کا خمیازہ ہم مسلسل نقصانات کی صورت میں بھگت رہے ہوں؟ کسٹم ایکٹ، منگورہ شہر کے بازار کی کٹائی، فلائی اورز کی مخالفت، جنگلات کے قانون کو نہیں چھیڑیں گے، بلکہ محکمہئ آبپاشی کے حالیہ فیصلے پر اپنی ضد بازی اور ڈھیٹ پن کا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا ہم نے جذبات میں گھاٹے کا سودا تو نہیں کیا؟ محکمہئ آبپاشی نے سوات کو مزید ممکنہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے اور سیاحت کو مزید پروان چڑھانے کی خاطر دریائے سوات کنارے غیرقانونی آبادیوں اور تجاوزات کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ طے پاگیا کہ دریائے سوات کی چوڑائی کو دو سو فٹ کیا جائے، تاکہ تیز بہاؤ کی صورت میں بھی دریا بپھر نہ سکے اور سیلابی خطروں کا باعث نہ بنے۔ مگر ایک بار ہماری علاقائی غیرت کی رگ پھڑک اٹھی، اور ہم سراپا احتجاج ہوگئے کہ کسی سرکار کا ہماری ذاتی جائیدادوں میں مداخلت ہماری غیرت کو للکارنے کے مترادف ہے۔ دریا کنارے بڑی بڑی عمارتوں کو معمولی خراش دے کر ہم نے بہ ظاہر سرکار کو بھی چکما دیا اور اپنی ضد بھی پوری کرلی، مگر نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ تھوڑی سی تیز بارشوں سے دریائے سوات کا بہاؤ تیز ہونا تھا کہ درجنوں کے حساب سے جانی نقصان اور وہ املاک خش و خاشاک کی طرح بہہ گئیں، جنہیں ہم نے خود محفوظ کرانے سے انکار کیا تھا۔
قارئین! سیانے کہتے ہیں کہ ”نو نقد نہ تیرہ ادھار!“ ٹھیک اسی طرح ہم نے نو نقد کی بجائے تیرہ ادھار والا گھاٹے کا سودا کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہم اپنے دریائے سوات سے ادھار میں لی ہوئی جائیداد اور عمارات کو واپس کرلیتے اور اپنی نقد جائیداد و عمارات کو بچالیتے۔ اب دریائے سوات بپھر گیا ہے اور اپنے تیرہ ادھار کے ساتھ ہمارے نو نقد کو بھی بہالے جارہا ہے۔
اب سوچیے کہ ہم کس گھاٹے کا ادھار چکتا رہے ہیں؟