امجد علی سحابؔ
پرسوں ایک کتاب ”شاعروں، ادیبوں کے لطیفے“ از شاہد حمید ہاتھ لگی۔ کتاب کافی ضخیم ہے اور دلچسپ بھی۔ بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نہ ایک سلسلہ شروع کیا جائے، جس میں قارئین کرام کے ہونٹوں پر تھوڑی مسکراہٹ بکھیری جائے۔ سرِ دست چچا غالبؔ اور علامہ اقبالؔ کے دو دو لطیفے ملاحظہ ہوں:
٭ مرزا غالبؔ کے پاس اکثر گمنام خطوط گالیوں سے بھرے ہوئے آیا کرتے تھے، جن میں ان کی شاعری پر اعتراض کیے جاتے تھے اور اس کا مذاق اُڑایا جاتا تھا۔ ایک روز اسی قسم کا ایک خط آیا جس میں ان کو ماں کی گالی دی گئی تھی، پڑھ کر کہنے لگے:”اس اُلو کو گالی دینی بھی نہیں آتی۔ بوڑھے یا ادھیڑ عمر آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں، تاکہ اس کو غیرت آئے۔ جوان کو جورو کی گالی دیتے ہیں، کیوں کہ اسے اپنی بیوی سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں، کیوں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔ یہ بے وقوف جو 72 سال کے بوڑھے کو ماں کی گالی دیتا ہے، اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہوگی!“
٭ غالبؔ ایک روز کسی سے کہنے لگے: ”کیوں صاحب، ہم تو مرد ہیں۔ ہمارا نماز پڑھنا ٹھیک ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہیں، تو اس لیے کہ ہمیں حوریں ملیں، غلماں ملیں۔ یہ عورتیں آخر کیوں نماز پڑھتی ہیں، انہیں کس کی تلاش ہے؟“
٭ علامہ بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت واقع ہوئے تھے۔ ایک روز جب ان کی عمر گیارہ سال کی تھی، انہیں سکول پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا: ”اقبال تم دیر سے آئے ہو!“ اقبال نے بے ساختہ جواب دیا: ”جی ہاں! اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے۔“
٭ سکول کے زمانے میں اردو کے استاد نے املا لکھواتے ہوئے ایک لفظ ”غلط“ لکھوایا، تو علامہ محمد اقبال نے ”غلط“ کو ”ط“ کے بجائے ”ت“ سے لکھ دیا۔ استاد نے جب دیکھا، تو کہا: ”اقبال میاں، آپ نے لفظ غلط لکھا ہے۔“ اس پر علامہ اقبال نے سنجیدگی سے کہا: ”ماسٹر صاحب! آپ نے یہ لفظ پڑھا ہی غلط تھا، تو مَیں نے بھی غلط لکھ دیا۔“ استاد صاحب حیران ہوئے اور بولے: ”مَیں نے غلط کیسے پڑھا تھا؟“ اس پر علامہ نے اپنے لکھے ہوئے لفظ ”غلت“ کی طرف توجہ دلائی اور عرض کیا: ”آپ نے اس کو کیا پڑھا تھا؟“ استاد صاحب نے لامحالہ ”غلت“ کو ”غلت“ ہی پڑھا، تو شاگرد نے فوراً جواب دیا: ”جناب! جو آپ نے پڑھایا اور لکھوایا، وہی مَیں نے لکھ دیا۔“ کم سن علامہ اقبال کی یہ ظریفانہ حرکت استاد صاحب کو مسکرانے پر مجبور کرگئی۔